Maktaba Wahhabi

89 - 120
ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ’’تصور شیخ ‘‘ کا عمل حوادث وخطرات میں نسخہ کیمیا ہے اوراس عمل کی برکت سے آفات وبلیات دفع ہوجایا کرتی ہیں۔اس سلسلے کی ایک حکایت ملاحظہ فرمائیں: کرامات امدادیہ جو مولانا رشید احمد گنگوہی،مولانا اشرف علی تھانوی اورمولانا محمد قاسم نانوتوی وغیرھم کی روایات پر مشتمل ہے،اس میں مولانا امداد اللہ صاحب کے ایک مرید کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ: ’’ وہ(مرید)کسی بحری جہاز سے سفر کررہے تھے،ایک تلاطم خیز طوفان میں جہاز گھر گیا،قریب تھا کہ موجوں کے ہولناک تصادم سے اس کے تختے پاش پاش ہوجائیں،راوی کا بیان ہے کہ جب مرید نے دیکھا کہ مرنے کے سواچارہ نہیں ہے تواسی مایوسانہ حالت میں گھبراکر اپنے پیرروشن ضمیر کی طرف خیال کیا،اس وقت سے زیادہ اورکون ساوقت امداد کا ہوگا،اللہ تعالیٰ سمیع وبصیر اورکارساز مطلق ہے،اسی وقت آگبوٹ غرق سے نکل گیا اورتمام لوگوں کو نجات ملی ‘‘[1] پیغام رسانی کے لیے: تصور شیخ کے ذریعہ ایک مرید،پیر ومرشد تک اپنا پیغام بھی بآسانی پہنچالیتا ہے،گویا موجودہ دور میں یہ عمل لاسلکی اتصال(بلکہ سوشل میڈیا)کے نعم البدل کی حیثیت رکھتا ہے،مزید یہ کہ آلات ووسائل سے بھی اس میں استغناء ہوتا ہے۔ ابن عجیبہ فرماتے ہیں: ’’…اگر مرید کو کوئی معاملہ درپیش ہواورشیخ تک پہنچنا دشوار ہوتو شیخ کواس کی صفت وہیئت کے ساتھ اپنی دونوں آنکھوں کے بیچ متصور کرے اوراس سے اپنی پریشانی بیان کرے،ان شاء اللہ شفایاب ہوجائے گا،اوراگر کسی جماعت یا گروہ کے ساتھ ہواورایسا
Flag Counter