Maktaba Wahhabi

27 - 73
مولانا احمد رضا خان اور تعزیہ داری یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ مولانا احمد رضا خاں تعزیہ داری اور اس سے متعلقہ تمام رسم ورواج کے سخت خلاف تھے،اس موضوع پر آپ کے دو مستقل رسالے ہیں:(۱)رسالہ تعزیہ داری(۲)اعالی الافادۃ فی تعزیۃ الہند وبیان الشہادۃ۔اس کے علاوہ آپ کی دیگر تصانیف میں جگہ جگہ ان امور پر تنبیہ موجود ہے،خاص طور پر آپ کی مشہور کتاب فتاوی رضویہ میں اس موضوع سے متعلق بہت سارے فتاوی مندرج ہیں۔بطور نمونہ یہاں چند فتاوی واقوال ذکر کیے جا رہے ہیں۔ فتاوی رضویہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں: تعزیہ جس طرح رائج ہے نہ ایک بدعت،مجمع بدعات ہے۔نہ وہ روضئہ مبارک کا نقشہ ہے اور ہو تو ماتم و سینہ کو بی اور تاشے باجوں کے گشت اور خاک میں دبانا یہ کیا روضئہ مبارک کی شان ہے۔اور پریوں اور براق کی تصویریں بھی شاید روضئہ مبارک میں ہوں گی،امام عالی مقام کی طرف اپنی ہوسات مخترعہ کی نسبت امام رضی اللہ تعالی عنہ کی توہین ہے،کیا توہین امام قابل تعظیم ہے۔کعبہ معظمہ میں زمانہ جاہلیت میں مشرکین نے سیدنا ابراہیم و سیدنا اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کی تصویریں بنائیں اور ہاتھ میں پانسے دیے تھے جن پر لعنت فرمائی اور ان تصویروں کو محو فرمادیا۔یہ تو انبیائے عظام کی طرف نسبت تھی کیا اس سے وہ ملعو ن پانسے معظم ہوگئے یا تصویریں قابل ابقا۔اور اسے ضروری کہنا تو اور سخت افترائے اخبث ہے،وہ بھی کس پر،شرع مطہر پر﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللّٰهِ الْکَذِبَ لاَ یُفْلِحُون﴾۔
Flag Counter