Maktaba Wahhabi

125 - 621
سے نقل کیاہے : بے شک ابن سوداء نے اہل کوفہ سے بیان کیا : ’’ اس نے تورات میں پایا ہے کہ ہر نبی کے لیے ایک وصی ہوتا ہے ؛ اور یہ کہ علی رضی اللہ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں ؛ اور یہ کہ یقیناً آپ تمام اوصیاء سے بہتر ہیں۔ جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے بہتر ہیں۔‘‘[1] اپنی اس بحث کے یہ دلائل اوروہ سابقہ نقول جو ہم نے بعض علماء اہل سنت اور شیعہ سے ذکر کی ہیں، اورساتھ ہی بعض مستشرقین کی جو گواہیاں نقل کی ہیں، کہ’’ رافضیت کی ایجاد میں عبد اللہ بن سبا کا کردار ‘‘ اپنے موضوع پر یہ کافی و شافی دلائل ہیں۔ اور یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ رافضیت اصل میں یہودیت سے ماخوذ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اس توفیق پر اس کی وہ حمد و ثنا جس کا وہ مستحق ہے۔ الحمد للہ۔‘‘ پانچویں بحث :… روافض کی یہود سے مشابہت رافضی یہودیوں سے بہت سے عقدی پہلوؤں، فقہی احکام ومسائل ؛ اور مذہبی امور میں مشابہت رکھتے ہیں۔ اور ان دونوں کے مابین اس قدر زیادہ مشابہت کا پایاجانا کوئی عجیب بات نہیں۔کیونکہ رافضیت کی بنیاد شروع دن سے ہی یہودیت کے عقائد و مبادیات پر رکھی گئی ہے۔ رافضیوں کا یہودیوں سے متاثرہونا ہروہ انسان جانتاہے جسے ان کے مبادیات اور عقائد کا علم ہے۔خواہ یہ علم اسے ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور لین دین کرنے کی وجہ سے حاصل ہوا ہو یا ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کی وجہ سے( خاص کر قدیم کتابوں کامطالعہ) حاصل ہوا ہو۔ ہمارے سلف صالحین (رحمہم اللہ ) لوگوں میں سے سب سے زیادہ ان کو جاننے والے تھے۔ جب انہوں نے اس حقیقت کا ادراک کیا تو پوری صراحت کے ساتھ رافضیت کی یہودیت کے ساتھ عقائد میں مشابہت کو بیان کیا ؛ اور لوگوں کوان سے خبر دار کیا۔ سب سے پہلے ان کے بارے میں خبر دار کرنے والے امام عامر بن شراحیل شعبی ہیں۔ آپ کوفہ میں ہی پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور وفات پائی۔ ان کا ساری زندگی ان (رافضہ ) کے ساتھ میل جول اور تعلق رہا ہے۔ اسی لیے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ ان (شیعہ و روافض) کے بارے میں جاننے والے تھے۔‘‘[2] ابن عبد ربہ نے ’’العقد الفرید ‘‘ میں مالک بن مغول سے روایت کیا ہے ؛ وہ کہتے ہیں : ’’ شعبی نے مجھ سے کہا : اے مالک ! ہم نے رافضہ کاتذکرہ کیا اگر میں چاہوں کہ وہ اپنی گردنیں غلام
Flag Counter