Maktaba Wahhabi

190 - 621
کی ذات کے بغیر کوئی دوسرا اس بات پر قادر نہیں ہوگا کہ وہ انسانیت کو ہر قسم کے گناہوں سے آزاد کرسکے۔‘‘[1] ان نصوص سے یہودیوں کے ہاں اس عقیدہ کے راسخ اور پختہ ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ہمارے لیے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پرانے اور آج کے دور کے یہود اس عقیدہ پر برابر قائم ہیں۔ رہی اس مسیح کی صفات ؛ اورحکومت میں اس کا طریقہ کار؛ اور جوتغیرات اس کے دور میں واقع ہوں گے؛ اوراس کے زمانے میں عالم کا جو حال ہوجائے گا؛ یہودی اسفار میں ان سب کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن یہ غیر منظم اور غیر مرتب طریقہ سے ہے، جیساکہ ان اسفار کی تالیف کا طریقہ ہے۔ میں اس بات کی کوشش کروں گا کہ اس تصور کی بعض چیدہ چیدہ نصوص آپ کے سامنے رکھی جائیں تاکہ یہودیوں کا مسیح کے متعلق تصور واضح ہوجائے۔ اور جو حادثات اس کے زمانے میں پیش آئیں گے وہ بھی واضح ہوجائیں۔ مسیح کے معانی : یہودی اسفار میں مسیح کا معنی ہے : جسے مقدس تیل سے مسح (مالش )کیا گیا ہو۔ ہر وہ بادشاہ جو اسرائیلی عرش پر بیٹھے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے یہ تیل مَلا جائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت حاصل کرسکے۔ یہ تیل بنانے کی ایک خاص ترکیب ہے۔ (ان کے گمان کے مطابق) سب سے پہلے اس تیل کا بنانے والے موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کویہ کا حکم دیاکہ یہ تیل تیار کیا جائے ؛ اور جناب ہارون علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کو ملا جائے تاکہ وہ اس تیل کی برکت سے ماہر(کاہن ) ہوجائیں۔‘‘[2] مسیح منتظر کا نام مسیح ان معنوں میں رکھا گیا ہے۔اس دعویٰ کو جو چیز پختہ کرتی ہے، وہ جناب مسیح کا اپنے متعلق بیان ہے، وہ کہتے ہیں : ’’مجھ پر سید الرب کی روح ہے۔ اس لیے کہ رب نے مجھ پر (مسح کیا)ہاتھ پھیرا ہے تاکہ مساکین کو بشارت دوں … ‘‘[3] مسیح کے زمانے میں کیا تغیرات ہوں گے ؟ رہا یہ معاملہ کے اس مسیح کے دور میں کیا تغیرات واقع ہوں گے ؟ اور کیا حادثات پیش آئیں گے ؟ ان (میں سے بعض) کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :
Flag Counter