Maktaba Wahhabi

94 - 621
منسوب کیا جاتا ہے وہ اصل میں ایک عوامی خیال (لوک کہانی ) سا ہے۔ جس کی تاریخ بنی عباس کے عہد میں ملتی ہے۔ وہ کہتا ہے : ’’ اس جیسی سازشوں کی صحیح تفسیر یہی کی جاسکتی ہے کہ یہ بنی عباس کے دور میں پیش آنے والا ایک حادثہ ہے۔ لیکن یہ اس دور کے احوال کے برعکس ہے۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ انصار علی میں کوئی سیاسی عنصر اس دور میں (۳۶ سے ۴۰ ہجری تک) ایسا رہا ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عبد اللہ بن سبا یا ابن سوداء یکدم ہی ایک لوک کہانی سے دینی عنصر میں بدل گیا ہو۔اور سبائی آراء پوری صدی ہی پروان چڑھتی رہی ہوں۔ اس میں کچھ تھوڑی سی ہنگامہ خیز تاریخی سبقت بیانی ہونابھی ممکن ہے۔ ‘‘[1] ان کے علاوہ اور بھی مستشرقین ہیں جو ابن سبا کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔ جیسے انگریز مستشرق ’’برنارڈ لوئس‘‘ اپنی کتاب: ’’أصول الإسماعیلیۃ ‘‘میں ؛ اوراٹلین مستشرق لیفی ڈیلا فیڈا‘‘ جس نے ابن سبا کے یہودی ہونے کا انکار کیا ہے۔ [2] ابن سبا کے وجود کے منکرین کے دلائل پر نقد و رد وجود ِعبد اللہ بن سبا کے منکرین کے اقوال نقل کرنے کے بعد ہم نے ان کے وہ دلائل بھی پیش کر دیے، جن پر ان کا اعتماد ہے۔ اب ان کے مذہب کے بارے میں یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی دلائل قریب قریب مندرجہ ذیل امور میں منحصر ہیں : اول:… وہ کہتے ہیں کہ ابن سبا کی اخبار عوام میں طبری کے ذریعہ سے مشہور ہوئی ہیں۔ اور طبری نے سیف بن عمر التمیمی سے یہ روایات اخذ کی ہیں۔ بس سیف بن عمر ابن سبا کی تاریخ کا واحد مصدر ہے۔اور سیف بن عمر جھوٹا ہے جب کہ علماء جرح وتعدیل نے اسے ضعیف کہا ہے۔ دوم:… ابن سبا کا اصل میں کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ حقیقت میں یہ عمار بن یاسر کی شخصیت کے لیے رمز اختیار کیا گیا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ان دونوں کوابن سوداء کہاجاتا تھا۔ سوم:… مؤرخین کا جنگ صفین میں ابن سبا کاذکر نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ چہارم :… حقیقت میں ابن سبا کا کوئی وجود ہی نہیں تھا بلکہ یہ ایک خیالی / افسانوی شخصیت ہے ؛ جسے دشمنان شیعہ نے گھڑ لیا ہے۔ جس کا مقصد ان کے دین میں طعن کرنا اور انہیں ایک یہودی کی طرف منسوب کرنا ہے۔
Flag Counter