Maktaba Wahhabi

135 - 268
فتنہ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اور اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو جنگ کے جوازکی سب صورتوں میں فتنہ ہی کی کوئی نہ کوئی قسم پائی جاتی ہے۔ یہاں فتنہ سے مراد خدا فراموش اور لادینی حکومت ہے۔ جو تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس صورت میں یہ جنگ مدافعانہ نہیں بلکہ اصلاحی جنگ کہلائے گی۔ دنیا سے فتنہ کا خاتمہ ہی اسلام کا حقیقی نصب العین ہے۔ (۷)قتل سفراء: بین الاقوامی تعلقات کی استواری کے لیے’’ایفائے عہد‘‘ کے بعد دوسری ضروری چیز سفارتی آداب کو اچھے طریقے پر ملحوظ رکھنا ہے۔ سفارتی آداب اور وفود کا احترام اتنا ہی اہم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے وقت اس کی خصوصی وصیت فرمائی تھی۔ سفارتی آداب کا انتہائی بگاڑ یہ ہوتا ہے کہ سفیر کو قتل کردیا جائے۔ مغرور حکمران بالعموم ایسی حرکت کرتے تھے۔ سفیر کا قتل در حقیقت جنگ کا الٹی میٹم ہوتا ہے ۔ اور کوئی خود دار حکومت اسے برداشت نہیں کرتی۔ اسی لیے آنحضرت ا نے حکم دیا کہ قاصد کبھی قتل نہ کیے جائیں۔ مسیلمہ کذاب نے جب اپنا قاصد عبادہ بن حارث بھیجا اور اس نے گستاخانہ گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: «لَوْلَا اَن الرسل لَا تُقْتَل لَضَربتُ عُنُقَكَ »[1] (اگر قاصدوں کا قتل ممنوع نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔) صلح حدیبیہ کے وقت جب یہ افواہ مشہور ہوگئی کہ حضرت عثمان شہید کردئیے گئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے کے پورے چودہ سو صحابہ ص سے خون پر بیعت لی۔ کیونکہ یہ قومی وقار کا مسئلہ تھا اور اگر خدانخواستہ یہ خبر صحیح ہوتی۔تو اس موقعہ پر جنگ یقینا ناگزیر تھی۔ جنگ موتہ بھی اسی لیے شام کے ساحل پر جاکر لڑی گئی تھی کہ عیسائیوں کے رئیس شرحبیل بن عمرو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے قاصد دحیہ کلبی کو لوٹ لیا تھا اور دوسرے حارث بن عمرو کو قتل کردیا تھا۔ لہذا قصاص کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لشکر کشی کی تھی[2]۔
Flag Counter