Maktaba Wahhabi

138 - 268
لڑائی لڑیں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کردئیے جائیں یا سولی چڑھادیے جائیں یاایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پا ؤ ں کاٹ دئیے جائیں یا ملک بدر کردیا جائیں۔) آیت مذکور میں یہ مختلف سزائیں ان کی تخریب کاری کی نوعیت کو ملحوظ رکھ کر تجویز کی گئی ہیں حاکم وقت ان کے جرم کی نوعیت کا لحاظ رکھ کر ایک سزا بھی تجویز کرسکتا ہے۔ اور بیک وقت کئی سزائیں بھی دے سکتا ہے۔ شوال ۶ھ میں قبیلہ عکل اور عُرینہ کے کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر اسلام لائے اور وہیں رہنا شروع کیا۔ ان لوگوں کو مدینہ کی آب وہوا راس نہ آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس تکلیف کی شکایت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیت المال کی چراگاہ میں رہنے کو کہا کہ وہاں رہ کر خوب اونٹنیوں کا دودھ پئیں اور یسار نامی ایک چرواہا ساتھ کردیا۔ یہ لوگ چند دنوں میں خوب موٹے تازے ہوگئے۔ ان کو شرارت جو سوجھی تو یسار چرواہے کو بڑی بے دردی سے مار ڈالا ۔ اور اونٹ ہنکا کر چلتے بنے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تعاقب میں آدمی بھیجے جو جاکر انہیں پکڑ لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بے دردی سے ان کو مروایا جو سلوک انہوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا۔ ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں ۔ ان کے ہاتھ پا ؤ ں کاٹے گئے۔ پھر حرّہ کے ایک کونے میں ڈال دئیے گئے جہاں وہ مرگئے۔ (بخاری ۔ کتاب المغازی ۔ باب قصۃ عکلٍ وعُرینۃ) (۲) تخریب کار یا منافق: ایسے لوگوں سے باقاعدہ جنگ تو نہیں البتہ ان کی ہر ممکن طریقہ سے سرکوبی ضروری ہے۔ اور وہ ہے تخریب کاریعنی (ففتھ کالمسٹ FIFTH COLOUMAST) یا منافقین کا طبقہ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی جنگ نہیں کی تاہم بوقت ضرورت اس طبقہ کی سرکوبی کے لیے اگر ضرورت ہو تو فوج کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اسلام میں جنگ کا مقصد محض فتنہ وفساد کا دفعیہ ہے وہ ملک کے اندر ہو یا باہر ایک ہی بات ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔ ﴿ يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ﴾ (۹/۷۳) (اے پیغمبر! کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو۔)
Flag Counter