Maktaba Wahhabi

166 - 268
اور ان کو غصب کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ پھر فتح کے بعد تو ایک بالا دست قوت کے لحاظ سے اس حق کا خوب استعمال کرتی ہیں۔ سالار لشکر کی طرف سے اس بات کی کھلی چھٹی ہوتی ہے۔ مثلاً تین دن تک فوج کو اجازت دی جاتی ہے۔ کہ وہ دشمن کا جونسا اور جتنا مال سمیٹ سکتی ہے سمیٹ لے اور ایسی لوٹ مار کو اموالِ غنیمت کہا جاتا ہے۔ اسلام سے پیشتر عربوں کا محبوب پیشہ یہی لوٹ مار تھا۔ محنت کی کمائی سے وہ لوٹ مار سے حاصل شدہ دولت کو بہت عزیز سمجھتے تھے۔ عرب جیسے بے آب وگیاہ علاقے میں وسائل معاش بہت کم تھے۔ لہٰذا قبائل عرب ایک دوسرے کو ہی نہیں اکثر تجارتی قافلوں کو لوٹا کرتے تھے۔ لوٹے ہوئے مال کی محبت ان کے خون میں رچ بس گئی تھی۔ چنانچہ اسلام لانے کے بعد بھی اموال غنیمت سے محبت مسلمانوں میں بسا اوقات غیر شعوری طور پر ابھر آتی تھی۔ اور حقیقت میں دیکھا جائے تو جنگ احد میں مسلمانوں کو ابتدائً جو شکست ہوئی۔ تو اس کا اصل سبب یہی اموالِ غنیمت سے محبت تھی ۔ اسلام نے اموالِ غنیمت سے اس اندھی محبت کا علاج یوں کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر بتادیا کہ: جو شخص اموالِ غنیمت کے لیے لڑتا ہے ۔ اس کا جہاد، جہاد نہیں اسے آخرت میں کوئی حصہ نہ ملے گا‘‘[1]۔ اسلام نے اموال غنیمت کو کلیتاًحرام قرار نہیں دیا وجہ یہ تھی کہ فوج کو تنخوا ہیں دینے کا کوئی ذریعہ موجود نہ تھا۔ البتہ اس پر اتنی پابندیاں اور حدود وقیود عائد کردیں کہ اموال غنیمت کا وہ مفہوم ہی نہ رہ گیا۔ جو دورِ جاہلیت میں یا آج بھی بالعموم سمجھا جاتا ہے۔ ان حدود وقیود کی تفصیل درج ذیل ہے۔ (۱)اموال غنیمت اور لوٹ کا فرق: اموال غنیمت صرف وہ مال سمجھا جائے گا۔ جو کوئی فوجی دستہ مرکز کی طرف سے لڑنے کی اجازت اور لڑنے کے بعد حاصل کرے گا۔ اگر کوئی فوجی دستہ مرکز کی اجازت کے بغیر کسی کافروں کے دستہ سے لڑکر فتح یاب ہوکر مال حاصل کرلیتا ہے۔ تو وہ مالِ غنیمت نہیں بلکہ غصب ہوگا۔ اسی طرح اگر مرکز کی طرف سے اجازت تھی لیکن لڑنے سے پہلے دشمن کے اموال کو لوٹ لیا گیا تو ایسا لوٹا ہوا مال بھی غنیمت کی تعریف سے نکل جائے گا۔ سریہ نخلہ ۲ھ میں حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ جو مالِ غنیمت لائے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter