Maktaba Wahhabi

192 - 268
کرتا تھا۔ بلکہ جنگ کے موقع پر جزیہ کے علاوہ ٹیکس بھی ان سے وصول کیے جاتے تھے۔ جزیہ کے عوض اسلامی حکومت تمام دفاعی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیتی ہے۔ چونکہ یہ ٹیکس دفاع سے تعلق رکھتا ہے۔ لہٰذا غیر مقاتل افراد یعنی بچے بوڑھے، عورتیں معذور، صوفی اور گوشہ نشین قسم کے حضرات اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ ایسی زبردست اقوام جو جزیہ ادا کرکے دفاعی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتی ہیں۔ اہل ذمہ کہلاتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ذمہ کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ زمین کا لگان مسلمانوں سے بھی وصول کیا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جو لگان مسلمانوں سے وصول کیا جاتا ہے۔ اس کا نام عُشر ہے۔ جو زکوٰۃ کی ایک مد ہے اور جو لگان مفتوح اقوام سے وصول کیا جاتاہے اس کا نام خراج ہے۔ گویا اسلام مفتوح اقوام پر کسی قسم کا ناجائز اقتصادی بوجھ ڈالنے کا روا دار نہیں۔ زکوٰۃ اور خراج کا فرق: تاہم جزیہ اور خراج اور زکوٰۃ میں چند بنیادی فرق بھی ہیں مثلاً: (۱) زکوٰۃ کی شرح جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی وہ شریعت کا حصہ ہے۔ اس شرح میں رد وبدل ممکن نہیں۔ جبکہ جزیہ اور خراج کی شرح مقرر کرنے کا اختیار ہر امام وقت کو ہوتا ہے۔ اور اسے یہ اختیار بھی ہوتا ہے۔ کہ ایک ہی وقت میں کسی مخصوص علاقہ میں یہ شرح زیادہ رکھے اور دوسرے میں کم۔ سفیان بن عیینہ عبداللہ بن نجیح سے روایت کرتے ہیں: «قلت لمجاهد ماشان اهل الشام علیهم اربعة دنانیر واهل الیمن علیهم دینار قال جُعل ذٰلك من قبل الیسار»[1] (میں نے مجاہد سے پوچھا شام کے کافروں سے تو (سال میں) چار دینار لیے ہیں۔ اور یمن کے کافروں سے صرف ایک لیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ کیاہے؟ انہوں نے کہا اس لیے کہ شام کے کافرزیادہ مال دار ہیں۔) جزیہ کی شرط کی مختلف شکلیں: ایران اور مصر کی متمدن حکومتیں عوام سے گزیت یا جزیہ قسم کا ٹیکس بھی لے لیتی تھیں اور
Flag Counter