Maktaba Wahhabi

196 - 268
مسلمان اس وقتی شکست کو بھی برداشت نہیں کرتا تا آنکہ فتح نہ پالے۔ مسلمانوں کی طرف سے صلح: میدانِ جنگ میں مسلمان کو کسی وقت بھی بزدلی کا مظاہرہ نہ کرنا چاہیے۔ اور نہ حوصلہ ہارنا چاہیے۔ وہ یہ بھی نہیں کر سکتا۔ کہ اپنے یا فوج میں کمزوری محسوس کرنے لگے تو دشمن کو صلح کی پیشکش کردے۔ ارشاد باری ہے:۔ ﴿ فَلَا تَهِنُوْا وَتَدْعُوْٓا اِلَى السَّلْمِ ڰ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ڰ وَاللّٰهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَّتِرَكُمْ اَعْمَالَكُمْ 35؀ ﴾ (۴۷/۳۵) (بزدلی نہ دکھا ؤ اور صلح کے لیے نہ پکارنے لگ جا ؤ تم ہی غالب رہوگے۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے۔ وہ ہرگز تمہارے اعمال کوکم (رائیگاں )نہ کرے گا۔) گویا مسلمان کو یہ حکم ہے کہ وہ آخر دم تک لڑائی جاری رکھے، نہ فرار کی بات سوچے اور نہ دشمن سے صلح کی۔ یا فتح حاصل کرے یا خود ختم ہوجائے بقول شاعر دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے یا تخت جگہ آزادی کی یا تختہ مقام آزادی کا غیر مسلم کی اطاعت: آج کے ماہرین حرب لڑائی کاایک اہم اصول ’’تادم آخر‘‘ بھی بیان کرتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آخری سپاہی کو آخری گولی تک لڑنا چاہیے۔ غالباً یہ اصول آیاتِ بالا سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔ کیونکہ اسلام کسی صورت غیر مسلم حکومت کی اطاعت کی اجازت نہیں دیتا ارشاد باری ہے: ﴿ فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَجَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا 52؀ ﴾ (۲۵/۵۲) (کافروں کی اطاعت مت کرو اور پوری قوت کے ساتھ ان سے جہاد کرو۔) دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دو موقعوں پر شکست کے آثار نظر آنے لگے تھے ۔ گو بعد میں فتح ہوگئی۔ تاہم ان مواقع پر مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے۔ جنگ احد میں شکست کے اسباب قرآن کریم نے یہ بیان کیے ہیں:۔ ﴿ وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ ۚ حَتّٰى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ۭ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْھُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۚ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ۭ وَاللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ ١٥٢؁ ﴾(۳/۱۵۲) (اور اللہ تعالیٰ نے تو اپنا (فتح کا) وعدہ پورا
Flag Counter