ہے۔ سابقین الاوّلین کی امن پسندی: پہلی وجہ یہ ہے کہ بیشک عرب کے اکثر قبائل فطرتاً جنگجو واقع ہوئے تھے۔ لیکن ان کے سب افراد جنگجو نہیں تھے۔ بلکہ ان مین کثیر طبقہ ایسا بھی تھا۔ جو اس قتل و غارت کا ہدف بنے ہوئے تھے۔ و ہ کمزور تھے، نہتے تھے۔ معاشرہ میں انہیں کوئی مقام حاصل نہ تھا۔ علاوہ ازیں وہ فطرتاً بھی قتل و غارت اور ظلم و فساد سے نفرت کرتے تھے۔ پھر اشرار میں ایک ایسا طبقہ موجود تھا۔ جو صلح و امن پسند تھا اور قتل و غارت اور ظلم و جبر سے نفرت کرتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے حلف الفضول کے واقعہ میں اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے۔ ایسے ہی لوگ ابتداء ً اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ چونکہ قتل وغارت اور ظلم و فساد کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے ختم کرنے کی صورت صرف یہی تھی کہ ایسے شرپسندوں کا جنگ کے ذریعہ قلع قمع کیا جائے لہذا جب کمزور مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت ملی تو بہت سے لوگوں کو یہ بات ناگوار تھی۔ ارشاد باری ہے۔ ﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۚ ﴾ (۲:۲۱۶) (تم پر جنگ فرض کی گئی ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔) دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ ۭ ﴾ (۹:۳۸) (مومنو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تم زمین پر گرے جاتے ہو۔) اور دورِ نبوی کی سب سے پہلی جنگ بدر مسلمانوں کی ’’ جنگ جوئی‘‘ کی کیفیت اس انداز میں بیان کی گئی ہے :۔ ﴿ كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ ۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ Ĉۙ يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ ﴾ (جیسا تمہارے پروردگار نے تمہیں تدبیر کے ساتھ تمہارے گھر سے نکالا اوراس وقت مومنوں کی ایک جماعت ناخوش تھی۔ وہ لوگ حق بات میں اس کے ظاہر ہونے کے |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |