Maktaba Wahhabi

57 - 268
حوالہ نہیں کی جا سکتیں۔ غزو ۂ بدر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسا شخص ملا جو بہادری میں مشہور تھا۔ اس نے اپنی خدمات پیش کیں تاکہ اموال غنیمت سے حصہ حاصل کر سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا۔ ’’کیا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے‘‘؟ اس نے کہا نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوٹ جا۔ میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔ تھوڑی دور آگے چل کر پھر یہی سوال جواب ہوئے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مدد لینے سے انکار کر دیا آگے بڑھے تو پھر یہی سوال و جواب ہوئے۔ اب کی بار اس نے جواب دیا کہ ’’میں اللہ اور اس کے رسول پر یقین رکھتا ہوں‘‘۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی۔ (مسلم‘ باب کراہیۃ الاستعانۃ فی الغز و بکافر) حالانکہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افرادی قوت کی سخت ضرورت تھی۔ تاہم اس میں اتنی گنجائش ضرور ہے کہ کافر اگر مشرک نہ ہو اور اس سے مسلمانوں کی خیر خواہی کا بھی یقین ہو تو اسے فوج میں شامل کیا جا سکتا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ سے جنگ حنین میں مدد لی۔ جبکہ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے (امام نووی۔ تحت شرح حدیث مذکورہ) (۲) مرد ہو: لڑنے والی فوج یا مجاہدین میں عورتوں کو بھرتی نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن کریم میں جہاد کے متعلق جتنی آیات آئی ہیں سب میں صرف مردوں سے خطاب ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں میدان جنگ میں لڑنے کی مکلف نہیں ہیں اور انہیں اصولاً غیر مجاہد قرار دیا گیا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضى الله عنه سے روایت ہے: ((قَالَتْ اسْتَاذَنْتُ النَّبی صلی اللّٰه علیه وسلم فی الجهاد و قال: جَهَاد کُنَّ الْحَجُّ‘‘-)) (بخاری۔ کتاب الجهاد والسیر۔ باب جهاد النساء) (میں نے آنحضرت اسے جہاد کی اجازت مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم عورتوں کا جہاد حج کرنا ہے (اس میں تم کو جہاد کا ثواب ملے گا)۔ خلافت راشدہ کے چالیس سالہ دور میں ہمیں ایک مثال ایسی ملتی ہے جہاں کسی عورت نے معرکہ کا رزار میں حصہ لیا ہے اور وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی جنگ جمل میں شمولیت اور قیادت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے جذبہ سے شدید متاثر
Flag Counter