ثابت ہوئی۔(طبری۔ج۱۔غزو ۂ خندق) (۳) جنگی چالیں یا خدع فی الحرب: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : «اَلْحَرْبُ خُدْعَةٌ» (بخاری۔کتاب استتابة المرتدین) (یعنی جنگ چالوں سے لڑی جاتی ہے۔) تو یہاں خدعۃٌ سے مراد بدعہدی یا اخلاقی اقدار کو پامال کر کے اپنے مقصد کا حصول نہیں۔بلکہ اس سے مراد ’’دا ؤ اور تدبیر‘‘ ہے۔جیسے دو پہلوانوں کی کشتی میں ایک پہلوان کوئی انوکھا دا ؤ کھیل کر دوسرے کو پچھاڑ دیتا ہے۔تو اس کے دا ؤ یا تدبیر کو دھوکا اور فریب پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔بس بالکل یہی مثال ان جنگی تدابیر کی ہوتی ہے۔جنہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خُدْعَۃٌ[1] کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔اب اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں: (۱) میدان جنگ میں صف بندی اس طرح کی جائے کہ دشمن کو اپنے حریف کی تعداد اصلی تعداد سے بہت زیادہ نظر آئے۔یہ خدعۃ یا جنگی چال تو ہے۔لیکن اسے مکرو فریب کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ (۲) آج کل فوج کی وردی کا رنگ عموماً خاکی تجویز کیا جاتاہے۔جو ہم رنگ زمین ہے۔اور اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ دشمن کے ہوائی جہاز فوج کی نقل و حرکت سے آگاہ نہ ہو سکیں۔یہ بھی خدعۃٌ کی تعریف میں آتا ہے۔اس طریق سے کسی چیز کی ہیئت تبدیل کر دی جاتی ہے۔لیکن دشمن سے مکرو فریب کا اسے نام نہیں دیا جاسکتا ۔ (۳) اسی طرح آج کل فوج اگر کہیں پڑا ؤ ڈالنا چاہے تو اپنے خیموں کے اوپر درختوں کی شاخیں رکھ دیتی ہے۔جسے کیمو فلاج (Camou Falge) کہتے ہیں۔اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دشمن کے جہاز اس مقام کو عام جنگل ہی تصور کریں اور فوج کی نقل و حرکت سے بے خبر رہیں۔یہ خدعۃ ہے۔ غرض اس طرح کی بیشمار تدابیر جنگ میں اختیار کی جاتی ہیں۔کمین گاہوں میں بیٹھنا‘ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |