Maktaba Wahhabi

124 - 421
عبیدہ رضی اللہ عنہ نے صرف حمص والوں کے ساتھ ہی یہ برتاؤ نہیں کیا تھا، بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہو چکے تھے اور انہیں فوجی Strategy کے تحت خالی کرنا پڑا، ان سب کی جزیہ کی رقم جس قدر وصول ہوئی تھی ساری کی ساری واپس کر دی۔ (فتوح البلدان: ص 137، کتاب الخراج لابی یوسف: ص 181، فتوح الشام: ص 138) سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عہد میں ذمیوں سے حسن سلوک: سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عہد خلافت میں بھی ذمیوں سے عدل و انصاف اور مساوات کا برتاؤ ہوتا رہا۔ انہوں نے مسلمانوں کی طرح ذمیوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کی اور ان کے مذہبی معاملات میں کسی قسم کی کوئی دخل اندازی نہیں کی۔ جزیہ اور خراج کی وصولی میں ان کے ساتھ وہی نرمی اور آسانی برتی جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے برتی تھی، اور شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے اپنے عہد خلافت میں سیدنا سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تھا کہ مجھے صدقات وغیرہ کے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا طریقہ لکھ کر ارسال فرمائیں۔ انہوں نے صدقات اور حکومت کے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا طرز عمل تو انہیں لکھ دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اگر آپ اپنے زمانہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی حکومت کی طرح حکمرانی کے فرائض انجام دے دیں تو آپ ان سے بڑھ جائیں گے کیونکہ نہ آپ کا زمانہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کی طرح کا ہے اور نہ ہی آپ کی رعایا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رعایا کی طرح ہے۔" (تاریخ الخلفاء: ص 231) آپ نے اپنے زمانے کے مختلف گورنروں اور کارکنان حکومت کو لکھا کہ کوئی شخص ذمیوں پر کسی قسم کی کوئی زیادتی نہ کرے اور ان کے حقوق کا اسی طرح تحفظ کرے جس طرح مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ نے ذمی کے خون کی وہی قیمت قرار دی جو مسلمانوں کے خون کی تھی۔ ایک دفعہ حیرہ میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کر دیا۔ آپ کو پتہ چلا تو آپ نے وہاں کے گورنر کو لکھا کہ قاتل کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کر دیا جائے۔ وہ چاہیں تو قتل کریں، چاہیں تو معاف کر دیں۔ گورنر نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے قاتل کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کر دیا، اور ذمیوں نے اسے قصاص
Flag Counter