Maktaba Wahhabi

156 - 421
اور رضا مندی کے ساتھ۔" لہٰذا جو مال دوسرا شخص خوش دلی اور رضا مندی سے نہ دے وہ جائز نہیں ہے۔ خریدوفروخت میں جھوٹ بولنا: اسلام میں تجارت اسلامی نظام معیشت کا جزواعظم ہے۔ اس وجہ سے فقہاء نے لکھا ہے کہ: "اس دنیا میں تجارت تمام معاشی اعمال میں سب سے بڑا وسیلہ معاش ہے اور تمدن و حضارت کے اسباب میں سے سب سے بڑا سبب ہے۔" اس وجہ سے اسلام نے تجارت کی بڑی ترغیب دی کیونکہ اقتصادی اور معاشی ترقی کا راز سب سے زیادہ تجارت ہی میں مضمر ہے۔ چنانچہ اسلام میں ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مال اور املاک کو مزید نفع کمانے اور اس طرح اپنی ملکیت اور مال میں اضافہ کرنے کے لیے استعمال کرے۔ وہ اپنے مال سے خود تجارت کر سکتا ہے اور دوسرے کاروباری شخص کے واسطے سے بھی اپنا منشاء پورا کر سکتا ہے۔ لیکن اس نے مال کمانے پر یہ قدغن لگا دی کہ "اپنے مالوں کو آپس میں باطل طریقوں سے نہ کھاؤ بلکہ باہمی رضامندی کے ساتھ تجارت کی راہ سے نفع حاصل کرو۔ (النساء: ) اس آیت میں ایک لفظ "بالباطل" فرما کر تمام ناجائز طریقوں سے حاصل کیے ہوئے مال کو حرام قرار دے دیا۔ ان ناجائز طریقوں کی تفصیل حدیث میں آئی ہے۔ آیت کے پہلے جملہ میں ناحق اور ناجائز طریقوں سے کسی کے مال میں تصرف کرنے کو حرام قرار دیا گیا۔ دوسرے جملہ میں جائز طریقوں کو حرمت سے مستثنیٰ کرنے کے لیے ارشاد فرمایا: " إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ" یعنی دوسروں کا وہ مال حرام نہیں جو بذریعہ تجارت باہمی رضا مندی سے حاصل کیا گیا ہو۔ چنانچہ تجارت کی حدیث میں بڑی فضیلت آئی ہے، اور سچے اور امانت دار تاجر کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ قیامت کے روز نبیوں، صدیقوں، شہیدوں کے ساتھ ہو گا۔ ایک اور حدیث میں جو سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
Flag Counter