Maktaba Wahhabi

173 - 421
فرمایا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (في مالك حق سوي الزكوٰة) (محلی لابن حزم: 6/185) "تیرے مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں (جو ٹیکسوں اور صدقات نافلہ کی صورت میں ادا کیے جا سکتے ہیں۔)" بہت سے ائمہ فقہ نے بھی لکھا ہے کہ جب دشمن سے جنگ ہو اور خزانہ حکومت میں مال کی کمی ہو تو رئیس حکومت کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ زکوٰۃ اور خراج کے علاوہ ٹیکس بھی زبردستی لے سکتا ہے۔ (کتاب ابن تیمیہ للشیخ محمد ابو زہرہ: ص 137، حقوق الانسان فی الاسلام للوافی: ص 76) جزیہ: اسلامی ریاست کے غیر مسلموں (ذمیوں) سے ان کی جان و مال کی حفاظت کا ایک ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جس کو جزیہ کہتے ہیں۔ یہ جزیہ صرف ایسے مردوں پر لگایا جاتا ہے جو فوجی خدمت کے قابل ہوں، اس لیے عورتیں، بچے اور بوڑھے اس سے مستثنیٰ ہیں، اور وہ تمام لوگ جیسے مسکین، غریب اور اپاہج وغیرہ جو مال نہیں رکھتے وہ بھی اس سے مستثنیٰ ہیں۔ نادار اور مذہبی پیشواؤں کو بھی اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ جزیہ پر غیر مسلموں کی رضا مندی کا اظہار اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے اپنے علاقہ پر اسلام کی سیادت کو تسلیم کر لیا ہے، لیکن اگر انہوں نے جزیہ دینے سے انکار کر دیا تو ان کے خلاف جنگ جائز ہو گی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں فرمایا تھا کہ جو لوگ تمہیں جزیہ دیں ان سے جزیہ قبول کرو، اور جو جنگ پر اتر آئیں ان سے جنگ کرو۔ (سنن سعید بن منصور: 2/264) جزیہ اور خراج دونوں غیر مسلموں سے وصول کیے جاتے ہیں لکن ان دونوں میں فرق ہے۔ خراج زمین کا ٹیکس ہے۔ چنانچہ بعد میں اگر مالک زمین اسلام بھی قبول کر لے پھر بھی اس کی زمین خراجی ہی رہتی ہے۔ لیکن جزیہ فرد کا ٹیکس ہے جو اس کی جان اور مال کی حفاظت کے عوض لیا جاتا ہے۔ چنانچہ جزیہ ادا کرنے والے ذمی کو فوجی خدمت سے
Flag Counter