Maktaba Wahhabi

174 - 421
مستثنیٰ رکھا گیا ہے، لیکن اگر ذمی فوجی خدمت کے لیے تیار ہوں اور ریاست ان پر اعتماد کر سکتی ہو تو ان کو جزیہ سے بری کیا جا سکتا ہے۔ (الخراج والدولۃ الاسلامیۃ: ص 111) اگر کوئی ذمی مسلمان ہو جائے تو جزیہ اس سے ساقط ہو جائے گا جب کہ خراج ساقط نہیں ہو گا۔ اور دوسرا فرق یہ ہے کہ خراج سنت سے ثابت ہے، قرآن حکیم میں اس کا کوئی ذکر نہیں جب کہ جزیہ کا ذکر خداوند قدوس نے قرآن حکیم میں کیا ہے۔ (توبہ: 29) جزیہ کی اسلام میں کوئی شرح متعین نہیں، اس لیے وہ براہ راست سربراہ مملکت اور فوج کی صواب دید پر ہے۔ حیرہ خلافت صدیقی میں فتح ہوا تو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے فی کس درہم کے حساب سے ان سے جزیہ وصول کر کے مدینہ روانہ کر دیا۔ (کتاب الاموال: ص 27) بہرحال اس کی شرح ذمیوں کی مالی حالت دیکھ کر ہی متعین کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نقل کیا ہے کہ "ذمیوں کے مالوں میں سے اتنا ہی لیا جائے جو ان کی ضرورت سے زائد ہو۔" (کتاب الخراج لابی یوسف: ص 123) موسمی صدقات: اللہ تعالیٰ نے اغنیاء پر بعض مخصوص زمانوں میں کچھ صدقات ضروری قرار دئیے ہیں جن سے فقراء اور مساکین کو فائدہ پہنچتا ہے، اور ان صدقات کو شریعت نے واجب یا سنت مؤکدہ قرار دیا ہے جیسے صدقہ فطر، عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی اور حج کی ہدی (قربانی) وغیرہ۔ زکوٰۃ الفطر جس کو صدقہ فطر بھی کہتے ہیں یہ 2ھ میں واجب قرار دی گئی۔ رمضان کے روزے بھی اسی سال فرض ہوئے۔ ان کے وجوب کا مقصد علماء کے نزدیک یہ ہے کہ روزہ دار لغو و رفث سے پاک و صاف ہو جائیں اور اس کا کفارہ ہو جائے اور مساکین اور حاجت مندوں کے لیے کھانا اور دوسری ضروریات فراہم ہو جائیں اور وہ عید کے روز سوال کی ذلت سے بچ جائیں۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہی بات ظاہر ہوتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ الفطر اس لیے فرض فرمائی کہ روزہ دار لغو و رفث سے پاک ہو جائے اور مساکین کو کھانا
Flag Counter