Maktaba Wahhabi

180 - 421
عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو وقف کر دیا اس شرط کے ساتھ کہ اس زمین کو نہ فروخت کیا جائے اور نہ وراثت اس میں جاری ہو اور نہ کسی کو ہبہ کیا جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فقراء، رشتہ داروں، قیدیوں، ناداروں اور مسافروں کے لیے اس زمین کی پیداوار کو وقف کر دیا۔ (رواہ البخاری: 2/982، و مسلم) علامہ یوسف قرضاوی نے لکھا ہے کہ "سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زمین کی پیداوار وغیرہ اللہ کی راہ میں وقف کر دینے کا حکم دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیراتی وقف کے لیے شرعی بنیاد فراہم کر دی جو ہر دور کے مسلم معاشرے میں کافی مؤثر کردار ادا کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرہ کی ضروریات میں سے کوئی ضرورت ایسی نہیں جس کے لیے معاشرہ کے اہل ثروت نے اپنی دولت کا کچھ حصہ وقف نہ کر دیا ہو۔" اسی وجہ سے مسلم معاشرہ میں شکستہ حال لوگوں اور محتاجوں کے لیے برصغیر پاک و ہند میں اوقاف کا ایک نہایت وسیع نظام قائم تھا جن کو انگریزوں نے ضبط کر کے ان کو اپنے انگریزی نظام تعلیم کے تعلیمی اخراجات میں صرف کیا اور بعض مساجد، مدارس اور اوقاف کی زمینوں کو گرجا گھروں میں تبدیل کر دیا۔ (جمال الدین افغانی: العروۃ الوثقیٰ: 413، عبدالمنعم نمر، تاریخ الاسلام فی الہند: 25، عبدالعزیز نوار، الشعوب الاسلامیہ: 56) وراثت: اپنی ضروریات پر خرچ کرنے، راہ خدا میں صدقہ و خیرات کرنے اور زکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی کے باوجود جو دولت ایک جگہ سمٹ کر رہ گئی ہو، اس ارتکاز کو بھی اسلام پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ اس ارتکاز دولت کو ختم کرنے کے لیے اور اس سمٹی ہوئی دولت کو گردش میں لانے کے لیے اسلام نے ایک اور تدبیر اختیار کی جس کو قانون وراثت کہتے ہیں۔ اس قانون کی غرض و غایت دولت کو دورونزدیک کے رشتہ داروں میں ایک ضابطہ کے تحت منقسم کرنا ہے۔ اور اگر کسی کا کوئی وارث نہ ہو تو مال کو اسلامی ریاست کے بیت المال میں داخل کر کے قومی ملکیت قرار دیا گیا ہے۔
Flag Counter