حق قضا
اسلام میں قضا کو مشروع قرار دیا گیا تاکہ لوگوں میں عدل قائم کیا جا سکے اور لوگوں کے تلف شدہ حقوق کو حاصل کیا جا سکے۔ اس کی دلیل یہ ہے:
(إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللّٰهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) (النساء: 105)
"بےشک ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اس چیز کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے آپ کو دکھائی ہے، اور آپ خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنیں۔"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(اذا اجتهد الحاكم فاصاب فله اجران، واذا اجتهد فأخطا فله اجر) (بخاری: 6/2676، مسلم: 12/13)
"جب کوئی حاکم (قاضی) اجتہاد کرتا ہے اور اس کا اجتہاد صحیح ہوتا ہے تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔ اور اگر اس کے اجتہاد میں خطا اور غلطی ہو جاتی ہے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔"
ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حسد صرف دو آدمیوں میں ہو سکتا ہے، ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اس کو نیک اور حق کاموں میں صرف کرے، اور دوسرا وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت اور علم عطا فرمایا
|