Maktaba Wahhabi

198 - 421
ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم بھی دیتا ہے۔" (بخاری: 1/31، مسلم: 6/97) قضا میں عدل و مساوات: اسلام لوگوں کے درمیان عدل و انصاف میں مساوات کا تقاضا کرتا ہے اور جو حقوق کسی نے دوسرے کے غصب کیے ہیں ان کو واپس لینا ضروری سمجھتا ہے۔ اس معاملہ میں شریف و ذلیل، آزاد اور غلام، متقی اور فاسق و فاجر، چھوٹا اور بڑا اور عاقل و مجنون اور دانش مند اور بے وقوف کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کرتا بلکہ ان میں سے ہر ایک کو اس کا جائز حق دیتا ہے جیسا کہ حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے: (وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ) (النساء: 58) "اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔" اسلام مسلمان اور کافر، کالا اور گورا اور مرد اور عورت ان میں کسی سے قضا کے لحاظ سے زیادتی کا قائل نہیں بلکہ یہ عدل و انصاف کے معاملہ میں مساوات کا قائل ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مقدمہ کے جو حقائق پیش کیے جاتے آپ اس کے مطابق فیصلہ صادر فرماتے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو شخص حاضر ہوئے جن کا وراثت کے بارے میں جھگڑا تھا اور دلیل دونوں کے پاس کوئی نہیں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی بات سن کر فرمایا: "تم میرے پاس اپنے تنازعات لے کر آتے ہو، اور میں ایک بشر ہوں، ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی طلاقت لسانی اور اپنی چرب بیانی سے میرے سامنے اپنے دلائل اس طریقہ سے پیش کرے کہ ان سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ اگر میں اس کے کسی بھائی کے حق کا فیصلہ اس کے حق میں کر دوں تو اسے دوسرے کا حق نہیں لینا چاہیے۔ اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اس کے حق میں فیصلہ کیا ہے لہٰذا میں غلط ہونے کے باوجود سچا ہوں کیونکہ پیغمبر نے میرے حق میں ڈگری کی ہے، تو وہ مجھ سے جہنم کا پروانہ لے کر جا رہا ہے۔ (بخاری: 6/2622، مسلم: 12/4)
Flag Counter