Maktaba Wahhabi

211 - 421
"شبہات کی موجودگی میں حدود ساقط کر دو، کیونکہ حاکم غلطی سے معاف کر دے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ غلط سزا دے۔" شریعت نے کسی جرم کے اعتراف پر سختی اور زبردستی کرنے سے منع فرمایا۔ چنانچہ حدیث میں ہے: (رفع عن امتي الخطاء والنسيان وما استكرهوا عليه) "اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطا، بھول چوک (نسیان) اور وہ گناہ معاف کر دیا ہے جو زبردستی اس سے کرایا جائے۔" (رواہ ابن ماجہ: 1/659، والبیہقی: 7/356، والدارقطنی: 4/171 او ہو حدیث حسن) جو آدمی کسی حق کا دعویٰ کرے یا کوئی جرم ثابت کرنا چاہے تو اس کا اثبات اور دلیل مدعی کے ذمہ ہے۔ اگر کسی دعویٰ ہی کی وجہ سے لوگوں کو حق دینا شروع کر دیا جائے تو لوگ لوگوں کے مال اور خون تک کا دعویٰ کرنا شروع کر دیں گے، لیکن جو دعویٰ سے انکار کرے اس کے ذمہ قسم ہے۔ اور بیہقی کی روایت میں ہے: (البينة علي المدعي واليمين عليٰ من انكر) "مدعی کے ذمہ دلیل اور شہادت ہے اور جو انکار کرے اس کے ذمہ قسم ہے۔" (بخاری: 4/1656، مسلم: 12/2، مسند احمد: 1/343، سنن کبریٰ بیہقی: 10/252) (3) مواخذہ صرف مجرم کو ہے: شریعت اسلامیہ میں ہر شخص اپنے جرم کی وجہ سے ماخوذ ہو گا۔ یہ نہیں کہ بیٹا جرم کرے اور باپ پکڑا جائے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں بھی ہے: (مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ) (النساء: 123) "جو شخص کوئی برا کام کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی۔" اور ایک اور آیت میں فرمایا: (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ) (الانعام: 164)
Flag Counter