Maktaba Wahhabi

237 - 421
ڈال رہے تھے۔ جب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے یہ دیکھا کہ پانی ڈالنے سے تو خون زیادہ بہہ رہا ہے تو انہوں نے ایک چٹائی کے ٹکڑے کو جلا دیا اور جب وہ راکھ ہو گیا تو اس راکھ کو زخم میں بھر دیا۔ پھر خون رک گیا۔ (مسلم، رقم: 1790، بخاری، رقم: 5248، ترمذی، رقم: 2085، سنن ابن ماجہ، رقم: 3464) سیدنا نوید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حکم دیا کہ ہم نمونیہ میں قسط (کٹھ) اور زیتون کے تیل سے علاج کریں۔ (سنن الترمذی، رقم: 2079، ابن ماجہ، رقم: 3468) ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی کے بارے میں جس کے چہرہ پر کسی چیز کا نشان پڑ گیا تھا اور وہ لڑکی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو نظر لگ گئی ہے۔ اس پر دم کراؤ۔ (بخاری، رقم: 5739، مسلم، رقم: 2917) مندرجہ بالا احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ علاج کرانا مشروع ہے۔ شفائے حقیقی تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، یہ دنیا چونکہ دارالاسباب ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسباب اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔ طبیب کے حق اجرت کی مشروعیت: جس طرح علاج کرانا مشروع ہے اسی طرح شریعت نے طبیب اور ڈاکٹر کے لیے یہ بھی مشروع اور جائز رکھا کہ وہ مریض سے اپنی اجرت لے، لیکن اجرت جائز لے۔ آج کل تو اکثر مریض کے مرض سے فائدہ اٹھا کر اس کو لوٹا جاتا ہے۔ بڑے بڑے اطباء اور ڈاکٹر آج کل صرف پیسے بنانے کے لیے علاج کرتے ہیں۔ ان کو سوائے رقم اکٹھی کرنے کے مریض سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔ اپریشن اور فصد علاج اور دوا میں شامل ہے۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر علاج سونگھنے والی دوا، منہ میں ڈالنے والی دوا اور فصد ہے۔ (ترمذی) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فصد کروایا اور فصد کرنے والے کو اس کی اجرت دی۔ (بخاری: 5691)
Flag Counter