سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا کی بڑی بہن سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ہم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچے تو میرے شوہر زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس صرف ایک بار بردار اونٹنی اور ایک گھوڑا تھا نہ کوئی جائیداد تھی اور نہ ہی کوئی مال اور نہ ہی کوئی غلام اور لونڈی جو اونٹ اور گھوڑے کو چارہ وغیرہ ڈالتا۔ میں خود جا کر گھوڑے کے لیے گھاس لاتی تھی اور اس کی ٹہل کرتی تھی۔ اپنے سوتیلے بچوں کی تربیت اور خدمت کرتی تھی۔ خود آٹا گوندھتی اور خود روٹی پکاتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو زمین کا ایک ٹکڑا عنایت فرمایا تھا جو میرے گھر سے تین فرسخ دور تھا۔ میں وہاں جاتی۔ کھجوروں اور گٹھلیوں کی ایک گٹھری باندھ کر اپنے سر پر رکھ کر لاتی۔ بالآخر میرے والد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک غلام بھیج دیا جس نے گھوڑے کی خدمت اپنے ذمہ لے کر مجھے اس جفاکشی سے نجات دے دی۔ (رواہ البخاری: 2/2982)
نفل روزے کے لیے خاوند کی اجازت:
عورت کو اپنے خاوند کی موجودگی میں نفل روزہ رکھنا ممنوع ہے جب تک کہ اس کا خاوند اس کی اجازت نہ دے، اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی مجاز ہے سوائے خاوند کی رضا اور اجازت سے، کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(لا يحل لامرأة أن تصوم وزوجها شاهد الاّ باذنه، ولا تاذن في بيته الاّ باذنه)
"کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے اور نہ کسی کو اس کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے مگر اس کی اجازت سے۔"
(رواہ البخاری: 3/4899، کتاب النکاح)
خاوند سے سفر کی اجازت:
ایک مسلمان عورت کے لیے تین روز کی مسافت (جو کہ قریباً 48 میل بنتی ہے)
|