Maktaba Wahhabi

300 - 421
مجھ پر ایمان لائی، اور جب لوگ مجھے چھوڑ رہے تھے، اس نے مجھے پناہ دی، جب لوگ میری تکذیب کر رہے تھے اس نے میرے (دعویٰ رسالت کی) تصدیق کی، اور اللہ تعالیٰ نے اس سے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ (معجم کبیر طبرانی: 23/13، مجمع الزوائد: 9/224، الاربعین فی مناقب امھات المومنین لابن عساکر ص 18، تاریخ دمشق لابن عساکر ص: 161، الاصابہ: 7/605، الاستیعاب: 4/1824) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی نے آپ کو پلیٹ میں ثرید بھیجی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خادمہ کے ہاتھ پر مارا اور وہ پلیٹ گر کر ٹوٹ گئی اور ثرید بھی نیچے گر گئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس ثرید کو اس برتن میں ڈالنے لگے اور فرماتے جاتے: اس کو کھا لو، تمہاری ماں کو غیرت آ گئی ہے۔ (رواہ البخاری: 3/4927، کتاب النکاح، باب الغیرۃ) اس سے آپ اندازہ فرمائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر حلیم تھے، اور آپ نے اپنے غصہ کو کیسے پیا اور کس حکمت سے معاملہ کو سلجھایا۔ عورت بھی مردوں کی طرح مکلّف اور مسئول ہے: عورت بھی مردوں کی طرح ایمان، عبادات، اخلاق، معاملات اور دوسرے تمام احکام شرعیہ میں مردوں کے ساتھ برابر ہے، البتہ بعض معاملات میں یہ مردوں سے مختلف ہے، کیوں عورت اور مرد کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے اختلاف رکھا ہے۔ اس بات کو ہر ایک نے تسلیم کیا ہے۔ اس بات کو لوگوں نے بگاڑ کر پیش کیا ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ "اسلام میں عورت مرد سے کم تر ہے۔" حالانکہ اسلام یہ نہیں کہتا اور نہ ہی اسلام میں ایسا ہے بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ عورت مرد سے مختلف ہے۔ یہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں فرق کا معاملہ ہے نہ کہ ایک کے مقابلہ میں دوسرے کے بہتر ہونے کا۔ مرد اور عورت کے بارہ میں اسلام کے سارے قوانین اسی اصول پر مبنی ہیں کہ عورت اور مرد دو الگ الگ صنفیں ہیں، لہٰذا خاندانی اور سماجی زندگی میں ان کا دائرہ عمل بھی ایک نہیں بلکہ مختلف ہے، اور ایک ہو بھی نہیں سکتا کیوں کہ جب دونوں صنفوں کے مابین حیاتیاتی بناوٹ کے لحاظ
Flag Counter