Maktaba Wahhabi

325 - 421
زیادہ غائب رہے کیوں کہ عورت کو اپنے خاوند سے استمتاع کا پورا حق ہے، لہٰذا مرد کو عورت سے چھ ماہ سے زیادہ غائب نہیں رہنا چاہئے۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں یہ حکم تمام مملکت اسلامیہ میں جاری کر دیا کہ کوئی شخص چھ ماہ سے زیادہ محاذ پر نہ رہے۔ (کشاف القناع، رقم: 5193) اس پر شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاویٰ میں بڑی عمدہ بحث کی ہے۔ اہل علم وہاں ملاحظہ فرما لیں۔ (مجموع الفتاویٰ: 34/89) بیویوں کے درمیان عدل: قرآن حکیم میں ایک سے زائد بیویاں کرنے کی اجازت ہے لیکن اس کو عدل سے مشروط کیا۔ (فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً) (النساء: 3) "یعنی اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ تم (ان میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک سے نکاح کرو۔" اس آیت میں پہلے کہا کہ تم بیک وقت چار تک بیویاں رکھ سکتے ہو۔ چنانچہ جو شخص مالی اور جسمانی طور پر متعدد بیویاں رکھ سکتا ہے وہ بشرط عدل چار بیویوں کو اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے، اور اگر وہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہ کر سکتا ہو تو وہ ایک بیوی پر اکتفا کرے۔ اسلام میں بیویوں کے درمیان عدل کو شوہر پر واجب قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ عدل امور ظاہری میں ہے جیسے نان و نفقہ، لباس اور رہائش وغیرہ میں، لیکن دل پر چونکہ کسی کو اختیار نہیں لہٰذا دلی محبت کی کمی بیشی پر نہ کوئی مواخذہ ہے اور نہ ہی عدل کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اس پر انسان کو کوئی قصد و اختیار نہیں۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے درمیان تقسیم میں عدل و مساوات سے کام لیتے تھے اور فرماتے تھے: "اے اللہ! جس میں مجھ کو قابو حاصل ہے اس میں میری یہ تقسیم ہے، اس چیز
Flag Counter