Maktaba Wahhabi

326 - 421
میں ملامت نہ فرما جس کا تو مالک ہے لیکن میں مالک نہیں!" (ترمذی: 3/446، سنن ابن ماجہ، رقم: 1979، نسائی فی باب عشرۃ النساء، ابن حبان: 10/5، مستدرک حاکم: 2/187، سنن کبریٰ بیہقی: 7/298 معرفۃ السنن والآثار، بیہقی 5: 424، مصنف ابن ابی شیبہ: 4/386، مسند احمد بن حنبل: 6/144) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان ہرشی میں عدل فرماتے تھے حتیٰ کہ سفر میں بھی قرعہ ڈالتے اور ایک یا دو ازدواج کو اپنے ساتھ لے کر جاتے۔ پھر مرض الوفات میں بھی آپ نے ایک بیوی کے ہاں اپنے آخری ایام گزارنے کے لئے دوسری بیویوں سے اجازت لی۔ (کما فی البخاری: 85/194، برقم: 4564، سنن ابی داؤد: 2/400) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا جو اپنی بیویوں کے درمیان عدل سے کام نہیں لیتے، چنانچہ آپ نے فرمایا: "جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں میں عدل نہ کرے تو وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلو ساقط ہو گا۔" (سنن کبریٰ نسائی: 5/208، رقم: 189، ابن ماجہ، رقم: 4207) عورت کا حق خلع: اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ جب اس کی زندگی اپنے خاوند کے ساتھ کشمکش میں گزر رہی ہو اور خانگی زندگی کے درست ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی ہو تو وہ اپنے مرد سے خلع لے کر جان چھڑا لے، لیکن بغیر کسی عذر کے یا معمولی بات پر شوہر سے طلاق لینے والی عورت پر اللہ کے رسول نے بتایا ہے کہ اس پر جنت حرام ہے، اور ایک روایت میں ان کو منافق کہا گیا ہے۔ اس کا منشاء یہی ہے کہ عورتیں اپنے خاوندوں سے الگ ہونے کی خواہش نہ کریں اور ان کی خانگی زندگی برباد نہ ہو۔ لیکن اگر عورت واقعی دیانت داری سے یہ محسوس کرتی ہے کہ اگر خلع کی صورت اختیار نہ کی گئی تو حدود اللہ قائم نہیں رہ سکیں گی تو ایسی مجبوری میں عورت خلع کے قانون سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
Flag Counter