Maktaba Wahhabi

339 - 421
"اے اللہ! اس کھانے سے بہتر عطا فرما۔" لیکن دودھ ایسی مبارک غذا ہے کہ اس سے بہتر کوئی اور غذا نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ اس کے پینے کے بعد فرمایا: (اللّٰهم بارك لنا فيه وزدنا فيه) " اے اللہ! ہمارے اس میں برکت فرما اور اس میں زیادتی عطا فرما۔" بچے کا اپنے باپ کی طرف منسوب ہونے کا حق: شریعت نے بچے کے نسب کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھا ہے کیوں کہ رضاعت، نان ونفقہ اور وراثت اور نکاح کے بے شمار مسائل کا تعلق ثبوت نسب پر ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا: (ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللّٰهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ)(الاحزاب:5) "( منہ بولے بیٹوں کو)ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کر کے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک بہت انصاف کی بات ہے، پس اگر تم کو ان کے حقیقی باپوں کا علم نہ ہوتو وہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں۔" زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب کسی شخص کو کوئی لڑکا پسند آتا وہ اس کو اپنا بیٹا بنالیتا اور اس کو اپنے مال کا وارث قرار دیتا،اور لوگ اس لڑکے کو اس شخص کو بیٹا کہا کرتے تھے۔اسلام نے ان کے اس دستور کو ختم کردیا اور یہ ہدایت کردی کہ ہر شخص کی نسبت اس کے اصل باپ کی طرف کی جائے اور ایسا نہ کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت عذاب کی وعید فرمائی۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے غیر کی طرف منسوب کیا
Flag Counter