Maktaba Wahhabi

88 - 421
لے تو وہ اچکا اور لٹیرا (محتلس اور منتہب) ہے، اور اگر زبردستی چھینے تو غاصب ہے۔ (لسان العرب: 10/156) اور فقہائے کرام رحمہ اللہ علیہم کے نزدیک چوری کی تعریف یوں ہے کہ: "کسی عاقل و بالغ کا خفیہ اور پوشیدہ طور پر کسی شبہ کے بغیر کسی دوسرے شخص کا ایسا مال لے لینا جو ہاتھ کاٹنے کے نصاب کے برابر ہو، مال کسی محفوظ جگہ میں ہو، مالیت رکھتا ہو اور جلدی خراب ہو جانے والا نہ ہو۔" (فتح القدیر لابن ہمام: 5/120) سرقہ کے لغوی معنی کسی شے کو لے لینے کے ہیں۔ صاحب قاموس نے لکھا ہے کہ سرقہ اور استراق کسی مال کو محفوظ جگہ سے پوشیدہ طور پر آ کر لے لینے کو کہتے ہیں۔ ابن عرفہ کہتے ہیں کہ سارق عربوں کے نزدیک اس شخص کو کہتے ہیں جو پوشیدہ طور پر محفوظ چیزوں کے پاس آئے اور ان چیزوں کو اٹھا لے جائے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہیں۔ (فقہ السنہ: 2/487) اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ چوری کی اہم شرائط حسب ذیل ہیں: 1۔ چور عاقل اور بالغ ہو 2۔ چوری شدہ چیز مالیت رکھتی ہو یعنی مال محترم اور متقوم ہو 3۔ اس کی قیمت نصاب قطع ید تک پہنچتی ہو 4۔ اور وہ محفوظ مقام پر ہو۔ چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے: جمہور فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت میں چوری کی سزا کے طور پر جس ہاتھ کو کاٹنے کا حکم ہے اس سے مراد دائیں ہاتھ کو کلائی سے کاٹنا ہے۔ اس کی دلیل قرآن حکیم کی اوپر والی آیت ہے اور اس کی تائید سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت "فاقطعوا ايمانهما" یعنی اس کا داہنا ہاتھ کاٹ دو والی روایت ہے۔ (سنن کبریٰ بیہقی: 8/278) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان دونوں حضرات نے فرمایا:
Flag Counter