Maktaba Wahhabi

90 - 421
ہے کیونکہ قطع ید اور رجل یعنی ہاتھ پاؤں کاٹنے سے کمائی میں کمی واقع ہو گی اور اس کے ہاتھ پاؤں جو کمانے کے ذریعہ ہیں ختم ہو جائیں گے۔ گویا شریعت نے سزائے قطع ید مقرر کر کے جرم کے داعی نفسیاتی عوامل کو ان نفسیاتی عوامل سے ختم کر دیا ہے جو حرام سے باز رکھنے والے ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ہماری کتاب "اسلام کا نظامِ عدل") چوری کا نصاب: اسلام نے چوری کا ایک نصاب رکھا ہوا ہے کہ کتنے مال کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ڈھال کی قیمت کے ماسوا میں ہاتھ نہ کاٹا جائے، اور ان دنوں اس کی قیمت 10 درہم کے برابر تھی، اور اس میں یہ دلیل ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کے لیے سرقہ میں نصاب معتبر ہے۔ اور سرقہ کی حد کا نصاب دس درہم یا ایک دینار ہے۔ چنانچہ ایمن بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ڈھال کی قیمت میں ہاتھ کاٹا ہے۔ اور اس وقت ڈھال کی قیمت ایک دینار تھی۔ امام نسائی نے اس حدیث کو چھ مختلف سندوں سے ذکر کیا ہے۔ (نسائی: 8/4958، 4959، 4960، 4961، 4962، 4963) عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دس درہم سے کم میں ہاتھ کاٹنا نہیں ہے۔" (مسند احمد، رقم: 6900، سنن دارقطنی، رقم: 3393، مجمع الزوائد: 6/373) اسلام میں چوری کی یہ حد مقرر ہونے سے چوری کا جرم قریباً ختم ہو گیا اور لوگوں کے اموال کی اس طریقہ سے حفاظت ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری کی حد قائم کرنے میں کبھی بھی سستی اور تہاون سے کام نہیں لیا اور جس شخص نے اس معاملہ میں ذرا بھی آپ سے سفارش کی اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈانٹ کر رکھ دیا۔ چنانچہ بنو مخزوم کی ایک عورت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چوری کی اور رسول اللہ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی معرفت بارگاہ نبوت میں سفارش کرائی کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی سفارش قبول
Flag Counter