Maktaba Wahhabi

138 - 338
ادب و احترام کی ایک اور صورت: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر اور احترام و اکرام ہی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے وقت کوئی ذو معنی لفظ استعمال نہ کیا جائے جس سے کسی بھی انداز سے توہین کا کوئی دور کا بھی اشارہ ملتا ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے الفاظ کے استعمال سے منع فرمایا ہے، سورۃ البقرۃ میں ارشادِ الٰہی ہے: { یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا وَ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ} [البقرۃ: ۱۰۴] ’’اے اہلِ ایمان! (گفتگو کے وقت پیغمبر سے) رَاعِنَا نہ کہا کرو بلکہ اُنْظُرْنَا کہا کرو اور خوب سن رکھو اور کافروں کے لیے دُکھ دینے والا عذاب ہے۔‘‘ ’’رَاعِنَا‘‘ کی بجائے ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ یہودی لوگ بغض و عناد کی بنا پر اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر ’’رَاعِیْنَا‘‘ کر دیتے تھے جس کا معنیٰ ہے ’’ہمارا چرواہا‘‘ یا پھر ’’رَاعِنَا‘‘کا ہی ایک معنی ’’احمق‘‘ بھی ہے لہٰذا تنقیص و اہانت کا شائبہ ہونے کی وجہ سے اس لفظ کا استعمال ہی ممنوع قرار دے دیا تاکہ راعی، رعونت اور حماقت جیسے تمام معانی سے دور کا بھی واسطہ نہ رہے۔[1] ۴۔ احیاء سنت اور تعمیلِ ارشاد: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت محض زبانی جمع خرچ تک رہنی چاہیے اور نہ ہی اس کا کوئی سالانہ یا ماہانہ اظہار کافی ہے بلکہ حب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا یہ ہے کہ محب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنے سامنے رکھے اور ہر اس سنت
Flag Counter