Maktaba Wahhabi

199 - 338
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صورتیں پیش کیں : ایک نورانی ازلی قدیم، دوسری نبوی مادی مُحدَث۔ چنانچہ اس کے دعوائے الوہیّت (أَنَا الْحَقّ) کے نتیجہ میں اسے زندیق و ملحد قرار دیتے ہوئے ۳۰۹؁ھ میں [اس وقت کے مرکز العلم والعلماء شہر] بغداد کے قاضی نے اسے ایک ہزار کوڑے لگوائے اور دونوں پاؤں کٹوائے، گردن اتروائی اور اس کے جسدِ خاکی کو آگ لگواکر اس کی راکھ دریائے دجلہ میں بہادی تھی۔ اس حلاج نے اپنے بہت سے اشعار میں اپنے اندر اللہ تعالیٰ کے حلول کر جانے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل مقام سے اونچا اٹھالے جانے کی گستاخیاں کی ہیں لیکن اہلِ بغداد ائمہ و علماء نے جس شخص کو بالاجماع دجّال و ساحر اور زندیق و ملحد قرار دے کر سزائے موت دی تھی صوفی گروہ کے اکثرلوگ آج بھی اسے ولی اور اس کی موت کو موتِ شہادت مانتے ہیں !! یہی یا اس کے قریب قریب ہی صوفیوں کے شیخِ اکبر، کبریتِ احمر اور محی الدین ابن عربی کے نظریات بھی ہیں۔[1] یہ حبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ناموسِ رسالت کے منافی امور ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یہ ابن عربی صوفی تھا جبکہ امام ابن العربی ایک بہت بڑے محدّث و فقیہ تھے۔ پہلے کا نام الف لامِ تعریف سے خالی ہے جبکہ دوسرے نام سے پہلے الف لامِ تعریف موجود ہے۔ یہ کہاں کی نصرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ؟ اسی طرح نصرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار کا جو طریقہ بعض لوگ اپنا لیتے ہیں،
Flag Counter