Maktaba Wahhabi

200 - 338
گھیراؤ جلاؤ، توڑ پھوڑ، آتش زنی، تخریب کاری اور قتل وغارت۔ یہ کہاں کی محبت ہے؟ پر امن و بے ضرر انداز سے دنیا کو اپنے غم و کرب کا پتہ ضرور دیں، ان کی گستاخیوں کی پر زور مذمت کریں، ان ملکوں کی مصنوعات بلکہ ہر کافر ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں لیکن اپنے ہی بھائیوں کے گلے تو نہ کاٹیں۔ اپنے ہی ملکوں کی املاک تو تباہ نہ کریں۔اس طرح کے پر تشدد احتجاج اور مظاہروں کو کفار تشدد و انتہاء پسندی قرار دے کر مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے لگے ہیں۔ موجودہ دور میں یہودی سازشیں اسلام اور مسلمانوں کے ارد گرد ایک مضبوط جال بچھا چکی ہیں۔ احتجاج یا ……: توہینِ رسالت یا کسی بھی ایسے مسئلہ میں احتجاج کے دوران مختلف جگہوں پر جو توڑ پھوڑ والا رد عمل سامنے آتا ہے وہ نہ تو اسلامی تعلیمات سے ہی لگاکھاتا ہے اور نہ ہی اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی کوئی توجیہہ بنتی ہے بلکہ بعض سیاسی عوامل اور دیگر سازشوں کے نتیجہ میں بعض جگہوں پر تواحتجاج کو ایک طوفانِ بدتمیزی کی شکل دے دی جاتی ہے۔ احتجاجی جلوس روانہ ہوجائے تو پھر اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو خش و خاشاک کی طرح بہائے روندے چلا جاتا ہے۔ گورنمنٹ یا نجی بس ہو، کسی کی نئی و قیمتی کار ہو یا موٹرسائیکل، اسے آگ لگا نا اور اس کی توڑ پھوڑ کرنا شرکائِ جلوس اپنا فرض سمجھتے ہیں، بھلا ان اشیاء کے مالکان کا کیا قصور ہے ؟ آج کل کے احتجاجی جلوسوں اور ہڑتالوں میں اپنا ہی کروڑوں بلکہ اربوں کا نقصان کردیا جاتا ہے اور یوں ہم اپنے نقصان کے ساتھ ساتھ کافروں کو اپنا مذاق اڑانے کا موقع بھی مہیا کردیتے ہیں۔ پر تشدد جلوسوں اور ہڑتالوں کی وجہ سے سکولوں، کالجوں، دفتروں اور کارخانوں بلکہ تمام کاروباری اداروں میں بلا وجہ و چھٹی ہوجاتی ہے۔ کوئی دکاندار
Flag Counter