Maktaba Wahhabi

214 - 338
اہلِ عظمت انبیاء علیہم السلام اور اہلِ ایمان کا اخلاق و کردار: کسی کی توہین و استہزاء کرنا اور اس کا تمسخر و مذاق اڑانا کبھی بھی اہلِ عقل و دانش لوگوں کا اخلاق و کردار نہیں رہا بلکہ یہ ہمیشہ سے جاہل و گنوار اور بدبخت لوگوں کے کرتوتوں ہی کا حصہ رہا ہے۔اہلِ عقل و دانش ہمیشہ اس سے بالا رہے ہیں خصوصاً انبیائِ کرام علیہم السلام نے تو اپنی طرف سے اس کی نفی کی ہے۔ چنانچہ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں یوں واضح فرمایا ہے: { وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖٓ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ} [البقرۃ: ۶۷] ’’اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ بیشک اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو۔ وہ بولے کہ کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ (موسیٰ نے) کہا کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہل و نادان بنوں۔‘‘ یہ صرف انبیاء علیہم السلام تک ہی نہیں بلکہ اہلِ ایمان بھی اس مذموم حرکت سے اپنے آپ کو بچائے رکھتے ہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤمن کی جو صفات ذکر فرمائی ہیں ان میں یہ شامل نہیں ہیں بلکہ اس کے برعکس مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی ہے: ((اِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیْسَ بِاللَّعَّانِ وَ لَا الطَّعَّانِ وَ لَا الْفَاحِشِ وَ لَا الْبَذِيئِ)) [1] ’’بیشک مومن نہ تو لعنت و ملامت کرنے والا ہوتا ہے اور نہ ہی طعن و تشنیع کرتا ہے، نہ فحش گو اور نہ ہی سوقیانہ زبان والا۔‘‘
Flag Counter