Maktaba Wahhabi

216 - 338
امام نووی نے لفظ ’’شہداء‘‘ کی شرح میں لکھا ہے کہ اس میں تین اقوال ہیں : ۱۔ وہ سابقہ انبیاء علیہم السلام کے لیے ان کے اپنی امتوں کو پیغامِ الٰہی پہنچانے کے گواہ نہ بن سکیں گے۔ ۲۔ وہ اپنے فسق کی وجہ سے دنیا میں اس لائق نہیں رہیں گے کہ کسی معاملہ میں ان کی شہادت و گواہی قبول کی جاسکے۔ ۳۔ وہ دنیا میں شہادت فی سبیل اللہ کی موت سے سرفراز نہیں ہوسکیں گے۔[1] جب یہ لعن طعن اور مذاق و استہزاء انبیاء کرام علیہم السلام اور اہلِ ایمان و صدیقین کی صفت نہیں ہوسکتا تو ہمارے نبی تو اس سے بالاولیٰ بری ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو امام الانبیاء و الرسل علیہم السلام ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم اور الادب المفرد امام بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ مسلمانوں کے مسلسل درپے آزار مشرکینِ مکہ کے خلاف بد دعا فرمائیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنِّيْ لَمْ أُبْعَثْ لَعَّاناً وَ اِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَۃً)) [2] ’’میں لعنت ملامت کرنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا بلکہ مجھے تو مجسمِ رحمت و پیکرِ شفقت بناکر مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘ جبکہ معجم طبرانی کبیر میں حضرت کریز بن اسامۃ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث صرف ان الفاظ میں بھی مروی ہے: ((اِنِّيْ لَمْ أُبْعَثْ لَعَّاناً)) [3] ’’مجھے لعنت ملامت کرنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا۔‘‘ اہلِ شقاوت کا شیوہ: اہلِ عظمت و اہلِ حق لوگوں کے ساتھ استہزاء و مذاق شروع سے لے کر
Flag Counter