علاقوں پر واقع شہروں اور قلعوں کے محاصروں میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جیسے ہی کفار کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کی گئیں تو مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ اب ہماری فتح کا وقت قریب آگیا ہے۔ چنانچہ ہمارے زمانے میں جب مسلمانوں نے بنی اصفر [رومیوں ] کا محاصرہ کیا اور ایک قلعے یا شہر کے محاصرہ پر ایک ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا مگر وہ فتح نہیں ہورہا تھا حتیٰ کہ ہم مایوسی کی حدود کے قریب پہنچ گئے کہ اندر سے محاصرہ شدہ لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سبّ و شتم کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ناموسِ رسالت پر حملہ کیا تو ہمیں بہت آسانی سے اور جلد فتح نصیب ہوگئی۔ صرف ایک یا دو ہی دن میں محاصرہ کامیاب ہوگیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسے مواقع پر ہمیں پتہ چلتا کہ اندر سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا شروع کر دیا ہے تو ان کے خلاف ہمارے دلوں کے غم و غصہ سے بھر جانے کے ساتھ ہی اسے ہم اپنی فتح کی بشارت بھی سمجھتے تھے۔‘‘[1]
۵۔ یہود و نصاریٰ کے احبار کا قبولِ اسلام:
دورِ حاضر کے یہود و نصاریٰ کے بکثرت احبار و رہبان، ان کے حاخام و پادری بلکہ بشپ تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پڑھ سن کر مشرف بہ اسلام ہوچکے ہیں چنانچہ جریدۂ رابطۂ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے اپنے (شمارہ ۱۸۹۹ بابت ۱۹/ ۶/ ۱۴۲۶ھ الموافق ۲۵/ ۷/ ۲۰۰۵ء [انٹرنیٹ]) میں ایسے کتنے ہی لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے فلسطین میں اسرائیلی یہودیوں میں سے مسلمان ہونے
|