Maktaba Wahhabi

48 - 338
۶۔ محاربین کے لیے بھی رحمت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنگی ضابطۂ اخلاق: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ لّلعالمین ہونے اور کفار کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے باعثِ رحمت و برکت ہونے کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عام حالات میں اور خصوصاً امن کے دور میں تو رحم دلی اور کرم گستری آسان ہے جبکہ نبی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و شفقت اور حلیمی و کریمی کا تو یہ عالم ہے کہ حرب و ضرب اور جنگ کے دوران بھی انتہائی رحم دل تھے اور اسی کی تعلیم اپنے پیروکاروں کو دی۔ میدانِ جنگ میں جانے والے اسلامی عساکر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تاکید کرکے بھیجا کرتے تھے کہ عین گھمسان کی جنگ اور میدانِ کار زار میں بھی بوڑھوں، عورتوں، راہبوں اور بچوں جیسے جنگ سے غیر متعلقہ انسانی طبقوں کو قتل نہ کرو۔ چنانچہ سنن ابی داود میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اسلامی افواج کوکسی مہم پر روانہ فرماتے تو انھیں یہ تاکید فرماتے: ((۔۔۔اِنْطَلِقُوْا بِاسْمِ اللّٰہِ وَ بِاللّٰہِ وَ عَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَ لَا تَقْتُلُوْا شَیْخاً فَانِیاً وَ لَا طِفْلاً صَغِیْراً وَ لَا امْرَأَۃً ۔۔۔))[1] ’’اللہ کے نام سے اور اسی کے سہارے روانہ ہوجاؤ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ملّت پر قائم رہنا، کسی عمر رسیدہ بوڑھے، شیر خوار بچے [نو عمر لڑکے لڑکی] اور کسی عورت کو قتل نہ کرنا۔‘‘ ابو داود کی سند پرتو امام شوکانی نے کلام کیا ہے۔[2] جبکہ عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت تو صحیح بخاری، مسلم شریف، ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ، مؤطا امام مالک اور مسند امام احمد میں بھی وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن
Flag Counter