Maktaba Wahhabi

51 - 338
بدلے میں جزیہ دینا قبول کرلیں تو وہ اپنے ہی دین پر قائم رہ سکتے ہیں، اور اگر انھیں یہ دونوں چیزیں قبول نہ ہوں تو پھر ان کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ غزوۂ خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَأُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ رَجُلاً یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلٰی یَدَیْہِ)) ’’میں اس آدمی کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھوں اللہ خیبر کو فتح کروائے گا۔‘‘ اور صبح و ہ جھنڈا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقدر میں آیا تو انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ سابقہ ہدایات دیں اور آخر میں فرمایا: ((لَأَنْ یَّہْدِيَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلاً وَاحِداً خَیْرٌ لَّکَ مِنْ حُمُرِ النَّعَمِ)) [1] ’’تمھارے ہاتھوں اللہ کسی ایک بھی آدمی کو اسلام کی ہدایت دے دے تو یہ تمھارے لیے لال اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔‘‘ کافروں پر حملہ کے یہی آداب صحیح مسلم، سننِ اربعہ، سنن بیہقی اور مسند امام احمد میں بھی وارد ہوئے ہیں۔[2] حملہ آور کافر سے حسن سلوک: صحیح بخاری اور مسند احمد میں ایک غیر مسلم بدو غورث بن الحارث کا واقعہ مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے سائے میں دوپہر کے وقت آرام فرمارہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار درخت پر لٹکی ہوئی تھی، اس نے تلوار سونت کر کہا: ’’ مَنْ یَّمْنَعُکَ مِنِّيْ؟‘‘ (تمھیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟)
Flag Counter