Maktaba Wahhabi

19 - 46
ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر تتر بتر ہوگیا۔جنگ خندق کے بعد قبیلہ خزرج کے چند جیالوں نے بارگاہ رسالت کے گستاخ اور جنگ خندق کے سب سے بڑے مجرم ابورافع کے قتل کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، اور حضرت عبد اللہ بن عتیک، مسعود بن سنان، عبد اللہ بن انیس، حارث بن رفع،اور خزاعی بن السود، رضی اللہ عنہم پر مشتمل قافلے کو اس دریدہ دہن کے قتل کی مہم پر روانہ فرمایا اور حضرت عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان پر امیر مقرر فرمایا۔یہ قافلہ شام کے وقت خیبر پہنچا اور حضرت عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ ایک تدبیر سے قلعہ میں داخل ہوگئے اور چھپ کر بیٹھ گئے، رات میں قصہ گوئی کا دور ختم ہوا اور تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو دربان بھی دروازہ بند کرکے اس کی چابیاں ایک کیل پر لٹکاکر چلاگیا۔حضرت عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ابو رافع بالاخانہ پر رہتا تھا جس تک کئی دروازے گزر کر جانا پڑھتا تھا، میں نے چابیاں لیں اور ایک دروازہ کو کھولتا اور پھر اسے اندر سے بند کرتا گیا، میں جب بالاخانہ پر پہنچا تو وہاں اندھیرا تھا اور ابورافع اپنے اہل وعیال میں سویا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کدھر ہے۔میں نے آواز دی:ابورافع!۔۔۔۔اس نے کہا:کون ہے؟میں آوا ز کی طرف لپکا اور پوری طاقت سے تلوا ر سے وار کیا لیکن وار خالی گیا، اس نے ایک زور کی چیخ ماری۔میں نے اپنی آواز بدل کر ہمدردانہ لہجہ میں پوچھا:ابو رافع تمہیں کیا ہو ا؟اس نے کہا:ابھی کسی نے مجھ پر تلوار کا وار کیا۔اس کے ساتھ ہی میں آواز کی طرف پلٹا اور اپنی
Flag Counter