Maktaba Wahhabi

90 - 154
اللہ اکبر! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نواسوں کے احوال سے کس قدر دلچسپی تھی! ان کے رونے کی آواز سن کر بے قرار ہوجاتے ہیں، سبب کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ سبب معلوم ہونے پر اس کے ازالہ کے لیے بھر پور کوشش فرماتے ہیں۔ اپنے مشکیزے میں پانی تلاش کرتے ہیں، لوگوں سے طلب کرتے ہیں، اور پانی نہ ملنے پر اپنی زبان پیارے نواسوں کے چوسنے کے لیے نکال دیتے ہیں۔ نواسوں کے پر سکون ہونے ہی سے قرار پاتے ہیں۔ فَصَلوَاتُ رَبِّيْ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ وَرَضِيَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْھُمَا وَأَرْضَاھُمَا۔ (۹) بیٹی اور داماد کی ضرورت پر فقیر طلبہ کی ضرورت کو ترجیح دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اولاد سے بہت پیار فرماتے تھے، لیکن اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ضروریات پر فقراء و مساکین کی ضروریات کو ترجیح دیتے۔ ذیل میں توفیقِ الٰہی سے اس بارے میں ایک واقعہ پیش کیا جارہا ہے۔ امام احمد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے ایک دن فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: ’’ وَاللّٰہِ! لَقَدْ سَنَوْتُ حَتّٰی لَقَدِ اشْتَکَیْتُ صَدْرِيْ ‘‘۔ قَالَ: ’’وَقَدْ جَائَ اللّٰہُ أَبَاکِ بِسَبْيٍ ، فَاذْھَبِيْ فَاسْتَخْدِمِیْہِ ‘‘۔ فَقَالَتْ:’’ وَأَنَا وَاللّٰہِ! قَدْ طَحَنْتُ حَتَّی مَجَلَتْ یَدَايَ ‘‘۔ فَأَتَتِ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ، فَقَالَ: ’’ مَا جَائَبِکِ أَيْ بُنَیَّۃُ؟ ‘‘۔ قَالَتْ:’’ جِئْتُ لِأُسَلِّمَ عَلَیْکَ ‘‘۔ وَاسْتَحْیَتْ أَنْ تَسْأَلَہٗ ، وَرَجَعَتْ، فَقَالَ:’’ مَا فَعَلْتِ؟ ‘‘
Flag Counter