Maktaba Wahhabi

203 - 256
نعت میں شرک و بدعت اور غلو کااسلوب نعت کا ایک اہم اور مشہور مگر شرکیہ انداز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں اپنے حالات اور مصائب و آلام کا اظہار کرکے ان سے مدد طلب کرنا، فریاد کرنا اور مشکل کشائی و حاجت روائی کے لیے سوال کرنا ہے ۔ شفائے امراض ، حصول مقاصد اور مصائب و مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لیے بار گاہ رسالت میں عرضداشت پیش کرنا نعت کے اجزائے ترکیبی میں شامل رہا ہے، مثلاً: امام بوصیری کا قصیدہ بردہ جو انفرادی مصائب کا نمونہ ہے اور ملت اسلامیہ کی اجتماعی تباہی و بربادی کا المیہ جسے حالیؔ جیسے مؤحدّ شاعر نے بھی (ٹھوکر کھاتے ہوئے) روایتی شاعری کی رو میں بہہ کر بصورت ’’استغاثہ‘‘ بہ درگاہِ رسالت پیش کیا ہے: اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے فریاد ہے اے کشتیِ امت کے نگہبان! بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے اسی طرح اقبالؔ نے بھی بعنوان ’’حضور رسالت مآب میں‘‘ پہلے تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محض تخاطب کا انداز اختیار کیا ہے اور استعانت و استغاثہ کی شاعری نہیں کی، مثلاً : حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں وفا کی جس میں ہو بُو وہ کلی نہیں ملتی
Flag Counter