Maktaba Wahhabi

255 - 256
نعت گوئی اور حقیقت وسیلہ ابھی تک آپ نے نعت کی تعریف ، تاریخ اور تدریجی نعت گوئی کا مطالعہ کیا۔ نتیجتاً یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہوگی کہ کس طرح نظریۂ ’نور من نور اللّٰہ‘ اور ’وسیلہ‘ کو ’’نعت گوئی‘‘ میں مبالغہ آرائی کا باعث بنایا گیاہے۔ اس سلسلے میں ’’نور من نوراللہ‘‘ پر تو سیر حاصل بحث ہوچکی ہے۔ اب ’’حقیقتِ وسیلہ‘‘ کا غائر مطالعہ کرتے ہیں تاکہ کھرا اور کھوٹا الگ ہوکر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے،نیز ’’وسیلہ کی حقیقت‘‘ طشت از بام ہوجائے اور اس کی شرعی حیثیت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے۔ وسیلہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مادہ ’’و س ل‘‘ ہے ، جس کا معنی عربی زبان میں ’’برضا ورغبت کسی کا قرب حاصل کرنا‘‘ مذکور ہے۔[1] وسیلہ کا یہ معنی شرعی اصطلاح کے بہت قریب ہے، یعنی ’’وہ نیک اعمال جن کے ذریعے بندہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے۔‘‘ اُردو زبان میں بھی تقریباً یہی معنی مُراد لیا جاتا ہے بلکہ عام استعمال میں صرف سبب اور ذریعہ کے معنی میں مستعمل ہے۔ قرآنِ حکیم میں دو جگہ لفظ وسیلہ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter