Maktaba Wahhabi

1001 - 644
صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بازو میں تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم كےساتھ کوئی بھی نہ تھا۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نکل گیا۔ اس پر صفوان نے اسے ملامت کی۔ جواب میں اس نے کہا: واللہ ! میں نے اسے دیکھا ہی نہیں۔ اللہ کی قسم! وہ ہم سے محفوظ کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہم چار آدمی یہ عہد وپیمان کر کے نکلے کہ انہیں قتل کردیں گے لیکن ان تک پہنچ نہ سکے۔[1] نادرۂ روزگار جانبازی: بہرحال اس موقع پر مسلمانوں نے ایسی نادرۂ روزگار جانبازی اور تابناک قربانیوں سے کام لیا جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ چنانچہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سپربنا لیا۔ وہ اپنا سینہ اوپر اٹھا لیا کرتے تھے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمن کے تیروں سے محفوظ رکھ سکیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اُحد کے روز لوگ (یعنی عام مسلمان) شکست کھاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (آنے کے بجائے اِدھر اُدھر )بھاگ گئے۔ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اپنی ایک ڈھال لے کر سپر بن گئے۔ وہ ماہر تیر انداز تھے ، بہت کھینچ کر تیر چلاتے تھے۔ چنانچہ اس دن دویاتین کمانیں توڑ ڈالیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے کوئی آدمی تیروں کا ترکش لیے گزرتا تو آپ فرماتے کہ انہیں ابو طلحہ کے لیے بکھیر دو۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم قوم کی طرف سر اٹھا کر دیکھتے تو ابو طلحہ کہتے : میرے ماں باپ آپ پر قربان ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھا کر نہ جھانکیں۔ آپ کوقوم کا کوئی تیر نہ لگ جائے ، میرا سینہ آپ کے سینہ کے آگے ہے۔[2] حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت ایک ہی ڈھال سے بچاؤ کررہے تھے اور ابو طلحہ بہت اچھے تیر انداز تھے۔ جب وہ تیر چلاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم گردن اٹھا کر دیکھتے کہ ان کا تیر کہاں گرا۔[3] حضرت ابو دجانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کھڑے ہوگئے۔ اور اپنی پیٹھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھال بنادیا۔ ان پر تیر پڑ رہے تھے لیکن وہ ہلتے نہ تھے۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے عُتبہ بن وقاص کا پیچھا کیا۔ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دندان مبارک شہید کیا تھا۔ اور اسے اس زور کی تلوار ماری کہ اس کا سر چھٹک گیا۔ پھر اس کے
Flag Counter