Maktaba Wahhabi

1003 - 644
وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ابن قمئہ اور اس کے ساتھیوں کے پے در پے حملوں کا دفاع کررہے تھے۔ انہی کے ہاتھ میں اسلامی لشکر کا پھریرا تھا۔ ظالموں نے ان کے داہنے ہاتھ پر اس زور کی تلوار ماری کہ ہاتھ کٹ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا پکڑ لیا۔ اور کفار کے مد مقابل ڈٹے رہے بالآخر ان کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے جھنڈے پر گھٹنے ٹیک کر اسے سینے اور گردن کے سہارے لہرائے رکھا۔ اور اسی حالت میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ ان کا قاتل ابن قمئہ تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کیونکہ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شکل تھے۔ چنانچہ وہ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کو شہید کرکے مشرکین کی طرف واپس چلاگیا اور چلا ّچلاّ کر اعلان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دیئے گئے۔[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر اور معرکہ پر اس کا اثر: اس کے اس اعلان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مسلمانوں اور مشرکین دونوں میں پھیل گئی۔ اور یہی وہ نازک ترین لمحہ تھا۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ تھلگ نرغے کے اندر آئے ہوئے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ان کے عزائم سرد پڑ گئے اور ان کی صفیں اتھل پتھل اور بد نظمی وانتشار کا شکار ہوگئیں۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی یہی خبر اس حیثیت سے مفید ثابت ہوئی کہ اس کے بعد مشرکین کے پُرجوش حملوں میں کسی قدر کمی آگئی۔ کیونکہ وہ محسوس کررہے تھے کہ ان کا آخری مقصد پورا ہوچکا ہے۔ چنانچہ اب بہت سے مشرکین نے حملہ بند کرکے مسلمان شہداء کی لاشوں کا مُثلہ کرنا شروع کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیہم معرکہ آرائی اور حالات پر قابو: حضرت مُصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کودیا۔ انہوں نے جم کر لڑائی کی۔ وہاں پر موجود باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بے مثال جانبازی وسرفروشی کے ساتھ دفاع اور حملہ کیا۔ جس سے بالآخر اس بات کا امکان پیدا ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی صفیں چیر کر نرغے میں آئے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جانب راستہ بنائیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
Flag Counter