Maktaba Wahhabi

1005 - 644
خلاصہ یہ کہ اس طرح کی جانبازی وجان سپاری کے ساتھ یہ دستہ منظم طور سے پیچھے ہٹتا ہوا پہاڑ کی گھاٹی میں واقع کیمپ تک جاپہنچا۔ اور بقیہ لشکر کے لیے بھی اس محفوظ مقام تک پہنچنے کا راستہ بنادیا۔ چنانچہ باقی ماندہ لشکر بھی اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا۔ اور حضرت خالد کی فوجی عبقریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوجی عبقریت کے سامنے ناکام ہوگئی۔ اُبی بن خلف کا قتل: ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی میں تشریف لاچکے تو اُبی بن خلف یہ کہتا ہوا آیا کہ محمد کہاں ہے ؟ یاتو میں رہوں گا یا وہ رہے گا۔ صحابہ نے کہا : یارسول اللہ !ہم میں سے کوئی اس پر حملہ کرے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے آنے دو۔ جب قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن صمہ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لیا۔ اور لینے کے بعد جھٹکا دیا تو اس طرح لوگ ادھر ادھر اڑ گئے جیسے اُونٹ اپنے بدن کو جھٹکا دیتا ہے تو مکھیاں اُڑ جاتی ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مد مقابل پہنچے۔ اس کی خود اور زِرہ کے درمیان حلق کے پاس تھوڑی سی جگہ کھُلی دکھائی پڑی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پر ٹکا کر ایسا نیزہ مارا کہ وہ گھوڑے سے کئی بار لڑھک لڑھک گیا۔ جب قریش کے پاس گیا ۔ درآں حالیکہ گردن میں کوئی بڑی خراش نہ تھی۔ البتہ خون بند تھا اور بہتا نہ تھا ۔ توکہنے لگا : مجھے واللہ! محمد نے قتل کردیا۔لوگوں نے کہا : اللہ کی قسم ! تمہارا دل چلا گیا ہے۔ ورنہ تمہیں واللہ کوئی خاص چوٹ نہیں ہے۔ اس نے کہا : وہ مکے میں مجھ سے کہہ چکا تھا کہ میں تمہیں قتل کروں گا۔[1]اس لیے اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ پرتھوک دیتا تو بھی میری جان چلی جاتی۔ بالآخر اللہ کا یہ دشمن مکہ واپس ہوتے ہوئے مقام سرف پہنچ کر مر گیا۔[2] ابو الاسود نے حضرت عروہ سے روایت کی ہے کہ یہ بیل کی طرح آواز نکالتا تھا اور کہتا تھا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو تکلیف مجھے ہے اگر وہ ذی المجاز کے سارے باشندوں کوہوتی تو وہ سب کے سب مرجاتے۔[3] حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھاتے ہیں: پہاڑ کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter