Maktaba Wahhabi

1008 - 644
ان ہی عورتوں میں حضرت امِ ایمن بھی تھیں۔ انہوں نے جب شکست خوردہ مسلمانوں کودیکھا کہ مدینے میں گھسنا چاہتے ہیں تو ان کے چہروں پر مٹی پھینکنے لگیں اور کہنے لگیں : یہ سوت کاتنے کا تکلالو اور ہمیں تلوار دو۔ [1]اس کے بعد تیزی سے میدان جنگ پہنچیں اور زخمیوں کو پانی پلانے لگیں۔ ان پر حِبان بن عرقہ نے تیر چلایا ، وہ گر پڑیں۔ اور پردہ کھل گیا۔ اس پر اللہ کے اس دشمن نے بھر پور قہقہہ لگایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات گراں گزری۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو ایک بے ریش تیردے کر فرمایا: اسے چلاؤ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے چلایا تو وہ تیر حِبان کے حلق پر لگا۔ اور وہ چت گرا۔ اور اس کا پردہ کھل گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ہنسے کہ جڑ کے دانت دکھائی دینے لگے۔ اورفرمایا: سعد نے اُمِ ایمن کا بدلہ چکا لیا۔ اللہ ان کی دعا قبول کرے۔[2] گھاٹی میں قراریابی کے بعد: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھاٹی کے اندر اپنی قیام گاہ میں ذرا قرار پالیا تو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مہر اس سے اپنی ڈھال میں پانی بھر لائے ۔ کہا جاتا ہے مہراس پتھر میں بنا ہوا وہ گڑھا ہوتا ہے جس میں زیادہ ساپانی آسکتا ہو۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ احد میں ایک چشمے کا نام تھا۔ بہرحال حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہ پانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پینے کے لیے پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قدرے ناگوار بو محسوس کی اس لیے اسے پیا تو نہیں۔ البتہ اس سے چہرے کا خون دھولیا اور سر پر بھی ڈال لیا۔ اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے : اس شخص پر اللہ کا غضب ہو جس نے اس کے نبی ؐ کے چہرے کو خون آلود کیا۔[3] حضرت سَہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زخم کس نے دھویا ؟ پانی کس نے بہایا ؟ اور علاج کس چیز سے کیا گیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لختِ جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زخم دھورہی تھیں۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ڈھال سے پانی بہا رہے تھے۔ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ پانی کے سبب خون بڑھتا ہی جارہا ہے تو چٹائی کا ایک ٹکڑ ا لیا۔اور اسے جلا کر چپکا دیا ، جس سے خون رک گیا۔[4]
Flag Counter