Maktaba Wahhabi

1020 - 644
یا حضرت عاصم بن ثابت کو حکم دیا اور انہوں نے اس کی گردن ماردی۔ اسی طرح مکے کا ایک جاسوس بھی مارا گیا۔ اس کا نام معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص تھا اور یہ عبد الملک بن مروان کا نانا تھا۔ یہ شخص اس طرح زد میں آیا کہ جب احد کے روز مشرکین واپس چلے گئے تو یہ اپنے چچیرے بھائی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملنے آیا۔ حضرت عثمان نے اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امان طلب کی۔ آپ نے اس شرط پر امان د ے دی کہ اگر وہ تین روز کے بعد پایا گیا تو قتل کردیا جائے گا لیکن جب مدینہ اسلامی لشکر سے خالی ہو گیا تو یہ شخص قریش کی جاسوسی کے لیے تین دن سے زیادہ ٹھہر گیا۔ اور جب لشکر واپس آیا تو بھاگنے کی کوشش کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کوحکم دیا اور انہوں نے اس شخص کا تعاقب کرکے اسے تہ تیغ کردیا۔ [1] غزوہ حمراء الاسد کا ذکر اگر چہ ایک مستقل نام سے کیا جاتا ہے مگر یہ درحقیقت کوئی مستقل غزوہ نہ تھا بلکہ غزوہ احد ہی کا جزووتتمہ اور اسی کے صفحات میں سے ایک صفحہ تھا۔ جنگ احد میں فتح وشکست کا ایک تجزیہ یہ ہے غزوہ احد ، اپنے تمام مراحل اور جملہ تفصیلات سمیت۔ اس غزوے کے انجام کے بارے میں بڑی طول طویل بحثیں کی گئی ہیں کہ آیا اسے مسلمانوں کی شکست سے تعبیر کیا جائے یا نہیں ؟ جہاں تک حقائق کا تعلق ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ جنگ کے دوسرے راؤنڈ میں مشرکین کو بالاتری حاصل تھی۔ اور میدان جنگ انہیں کے ہاتھ تھا۔ جانی نقصان بھی مسلمانوں ہی کا زیادہ ہوا۔ اور زیادہ خوفناک شکل میں ہوا۔ اور مسلمانوں کا کم از کم ایک گروہ يقيناً شکست کھاکر بھاگا۔ اور جنگ کی رفتار مکی لشکر کے حق میں رہی۔ لیکن ان سب کے باوجود بعض امور ایسے ہیں جن کی بنا پر ہم اسے مشرکین کی فتح سے تعبیر نہیں کرسکتے۔ ایک تو یہی بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ مکی لشکر مسلمانوں کے کیمپ پر قابض نہیں ہوسکا تھا۔ اور مدنی لشکر کے بڑے حصے نے سخت اتھل پتھل اور بد نظمی کے باوجود فرار نہیں اختیار کیا تھا بلکہ انتہائی دلیری سے لڑتے ہوئے اپنے سپہ سالار کے پاس جمع ہوگیا تھا۔ نیز مسلمانوں کا پلہ اس حد تک ہلکا
Flag Counter