Maktaba Wahhabi

1038 - 644
مکے سے ایک مرحلہ دور وادی مَرا لظَّہران پہنچ کر مجنہ نام کے مشہور چشمے پر خیمہ زن ہوا۔ لیکن وہ مکہ ہی سے بوجھل اور بددل تھا۔ باربار مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی جنگ کاا نجام سوچتا تھا۔ اور رعب وہیبت سے لرز اٹھتا تھا۔ مَر الظَّہران پہنچ کر اس کی ہمت جواب دے گئی۔ اور وہ واپسی کے بہانے سوچنے لگا۔ بالآخر اپنے ساتھیوں سے کہا : قریش کے لوگو! جنگ اس وقت موزوں ہوتی ہے جب شادابی او ر ہریالی ہوکہ جانور بھی چر سکیں اور تم بھی دودھ پی سکو۔ اس وقت خشک سالی ہے لہٰذا میں واپس جارہا ہوں۔ تم بھی واپس چلے چلو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے ہی لشکر کے اعصاب پر خوف وہیبت سوار تھی کیونکہ ابو سفیان کے اس مشورہ پر کسی قسم کی مخالفت کے بغیر سب نے واپسی کی راہ لی اور کسی نے بھی سفر جاری رکھنے اور مسلمانوں سے جنگ لڑنے کی رائے نہ دی۔ ادھر مسلمانوں نے بدر میں آٹھ روز تک ٹھہر کر دشمن کا انتظار کیا۔ اور اس دوران اپنا سامانِ تجارت بیچ کر ایک درہم کے دودرہم بناتے رہے۔ اس کے بعد اس شان سے مدینہ واپس آئے کہ جنگ میں اقدام کی باگ ان کے ہاتھ آچکی تھی۔ دلوں پر ان کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ اور ماحول پر ان کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی۔ یہ غزوۂ بدر موعد ، بدر ثانیہ ، بدر آخرہ اور بدر صغریٰ کے ناموں سے معروف ہے۔[1] غزوہ دُوْمَۃُ الجندل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے واپس ہوئے تو ہر طرف امن وامان قائم ہوچکا تھا۔ اور پورے اسلامی قلمرو میں اطمینان کی بادبہاری چل رہی تھی۔ اب آپ عرب کی آخری حدود تک توجہ فرمانے کے لیے فارغ ہوچکے تھے۔ اور اس کی ضرورت بھی تھی تاکہ حالات پر مسلمانوں کا غلبہ اور کنٹرول رہے۔ اور دوست ودشمن سبھی اس کو محسوس اور تسلیم کریں۔ چنانچہ بدر صغریٰ کے بعدچھ ماہ تک آپ نے اطمینان سے مدینے میں قیام فرمایا۔ اس کے بعد آپ کو اطلاعات ملیں کہ شام کے قریب دُوْمۃ الجندل کے گرد آباد قبائل آنے والے قافلوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ اور وہاں سے گزر نے والی اشیاء لوٹ لیتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے مدینے پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑی جمعیت فراہم کرلی ہے۔ ان اطلاعات کے پیش نظر رسول اللہ
Flag Counter