Maktaba Wahhabi

1086 - 644
رضی اللہ عنہم کو اسی اسی کوڑے مارے گئے۔ [1]البتہ خبیث عبد اللہ بن ابی کی پیٹھ اس سزا سے بچ گئی۔ حالانکہ تہمت تراشوں میں وہی سرِ فہرست تھا۔ اور اسی نے اس معاملے میں سب سے اہم رول ادا کیا تھا۔ اسے سزا نہ دینے کی وجہ یا تو یہ تھی کہ جن لوگوں پر حدود قائم کردی جاتی ہیں وہ ان کے لیے اخروی عذاب کی تخفیف اور گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ اور عبد اللہ بن ابی کو اللہ تعالیٰ نے آخرت میں عذاب عظیم دینے کا اعلان فرمادیا تھا ، یا پھر وہی مصلحت کار فرماتھی جس کی وجہ سے اسے قتل نہیں کیا گیا۔ [2] حافظ ابن حجر نے امام حاکم کی روایت نقل کی ہے کہ عبد اللہ بن ابی کو بھی حد لگائی گئی تھی۔ اس طرح ایک مہینے کے بعد مدینہ کی فضا شک وشبہے اور قلق واضطرا ب کے بادلوں سے صاف ہوگئی۔ اور عبد اللہ بن ابی اس طرح رسوا ہو اکہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب وہ کوئی گڑبڑ کرتا تو خود اس کی قوم کے لوگ اسے عتاب کرتے ، اس کی گرفت کرتے اور اسے سخت سُست کہتے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : اے عمر ! کیا خیال ہے ؟ دیکھو! واللہ! اگر تم نے اس شخص کو اس دن قتل کردیا ہوتا جس دن تم نے مجھ سے اسے قتل کرنے کی بات کہی تھی تو اس پر بہت سی ناکیں پھڑک اٹھتیں ، لیکن اگر آج انہیں ناکوں کو اس کے قتل کا حکم دیا جائے تو وہ اسے قتل کردیں گے۔حضرت عمرنے کہا : واللہ! میری خوب سمجھ میں آگیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ میرے معاملے سے زیادہ بابرکت ہے۔[3]
Flag Counter