Maktaba Wahhabi

1091 - 644
تاکہ لوگوں کو اطمینان رہے کہ آپ جنگ نہیں کریں گے۔ آگے آگے قبیلہ خزاعہ کا ایک جاسوس بھیج دیا تاکہ وہ قریش کے عزائم کی خبر لائے۔ عسفان کے قریب پہنچے تو اس جاسوس نے آکر اطلاع دی کہ میں کعب بن لوی کو اس حالت میں چھوڑ کر آرہا ہوں کہ انھوں نے آپ سے مقابلہ کرنے کے لیے احابیش (حلیف قبائل ) کو جمع کررکھا ہے۔ اور بھی جمعیتیں فراہم کی ہیں۔ اور وہ آپ سے لڑنے اورآپ کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ اس اطلاع کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اور فرمایا : کیا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ لوگ جو قریش کی اعانت پر کمر بستہ ہیں ہم ان کے اہل وعیال پر ٹوٹ پڑیں اور قبضہ کرلیں ؟ اس کے بعد اگر وہ خاموش بیٹھتے ہیں تو اس حالت میں خاموش بیٹھتے ہیں کہ جنگ کی مار اور غم والم سے دوچار ہوچکے ہیں اور بھاگتے ہیں تو وہ بھی اس حالت میں کہ اللہ ایک گردن کا ٹ چکا ہوگا۔ یا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ہم خانہ کعبہ کا رُخ کریں۔ اور جو راہ میں حائل ہواس سے لڑائی کریں ؟ اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ مگر ہم عمرہ اداکرنے آئے ہیں۔ کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں۔ البتہ جو ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگا اس سے لڑائی کریں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اچھا تب چلو۔ چنانچہ لوگوں نے سفر جاری رکھا۔ بیت اللہ سے مسلمانوں کو روکنے کی کوشش: ادھر قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کا عِلم ہوا تو اس نے ایک مجلس ِ شوریٰ منعقد کی۔ اور طے کیا کہ جیسے بھی ممکن ہو مسلمانوں کو بیت اللہ سے دور رکھا جائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب احابیش سے کتراکر اپنا سفر جاری رکھاتو بنی کعب کے ایک آدمی نے آکر آپ کو اطلاع دی کہ قریش نے مقام ذی طویٰ میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے اور خالد بن ولید دوسو سواروں کا دستہ لے کر کُرَاع الغمیم میں تیا ر کھڑے ہیں (کُراع الغمیم ، مکہ جانے والی مرکزی اور کاروانی شاہراہ پر واقع ہے ) خالد نے مسلمانوں کو روکنے کی بھی کوشش کی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے سواروں کو ایسی جگہ تعینات کیا جہاں سے دونوں فریق ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ خالد نے ظہر کی نماز میں یہ بھی دیکھا کہ مسلمان رکوع اور سجدے کررہے ہیں تو کہنے لگے کہ یہ لوگ غافل تھے۔ ہم نے حملہ کردیا ہوتا تو انھیں مارلیاہوتا۔ اس کے بعد طے کیا کہ عصر کی نماز میں مسلمانوں پر اچانک ٹوٹ پڑیں گے ، لیکن اللہ نے اسی دوران صلوٰۃ خوف (حالت جنگ کی مخصوص نماز) کا حکم نازل کردیا۔ اور خالد کے ہاتھ سے موقع جاتا رہا۔ خونریز ٹکراؤ سے بچنے کی کوشش اور راستے کی تبدیلی : ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کُراع الغمیم کا مرکزی راستہ چھوڑ کر ایک
Flag Counter