Maktaba Wahhabi

1093 - 644
اور اگر انہیں لڑائی کے سو ا کچھ منظور نہیں تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اپنے دین کے معاملے میں ان سے اس وقت تک لڑتا رہوں گا جب تک کہ میری گردن جدا نہ ہوجائے یا جب تک اللہ اپنا امر نافذنہ کردے۔ بُدَیل نے کہا : آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں میں اسے قریش تک پہنچادوں گا۔ اس کے بعد وہ قریش کے پاس پہنچا۔ اور بولا: میں ان صاحب کے پا س سے آرہا ہوں میں نے ان سے ایک بات سنی ہے ، اگر چاہو تو پیش کردوں۔ اس پر بیوقوفوں نے کہا:ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم ہم سے ان کی کوئی بات بیان کرو۔لیکن جو لوگ سوجھ بوجھ رکھتے تھے انہوں نے کہا : لاؤ سناؤ تم نے کیا سنا ہے ؟ بدیل نے کہا : میں نے انہیں یہ اور یہ بات کہتے سنا ہے۔ اس پر قریش نے مکرز بن حفص کو بھیجا۔ اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بد عہد آدمی ہے، چنانچہ جب اس نے آپ کے پاس آکر گفتگوکی تو آپ نے اس سے وہی بات کہی جو بدیل اور ا س کے رفقاء سے کہی تھی۔ اس نے واپس پلٹ کر قریش کو پوری بات سے باخبر کیا۔ قریش کے ایلچی : اس کے بعد حلیس بن علقمہ نامی بنوکنانہ کے ایک آدمی نے کہا: مجھے ان کے پاس جانے دو۔ لو گوں نے کہا: جاؤ۔ جب وہ نمودار ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : یہ فلاں شخص ہے۔ یہ ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے جو ہَدْی کے جانوروں کا بہت احترام کرتی ہے۔لہٰذا جانوروں کو کھڑا کردو۔ صحابہ نے جانوروں کو کھڑا کردیا۔ اور خود بھی لبیک پکارتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ اس شخص نے یہ کیفیت دیکھی تو کہا : سبحان اللہ ! ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا ہرگز مناسب نہیں۔ اور وہیں سے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس پلٹ گیا۔ اور بو لا : میں نے ہدی کے جانور دیکھے ہیں جن کے گلوں میں قلادے ہیں۔ اورجن کی کوہان چیری ہوئی ہیں۔ اس لیے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ انہیں بیت اللہ سے روکا جائے۔ اس پر قریش اور اس شخص میں کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ وہ تاؤ میں آگیا۔ اس موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی نے مداخلت کی اور بو لا : اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز پیش کی ہے۔ لہٰذا اسے قبول کرلو۔ اور مجھے ان کے پاس جانے دو۔ لوگوں نے کہا : جاؤ ! چنانچہ وہ آپ کے پاس حاضر ہوا۔ اور گفتگو شروع کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی۔ اس پر عروہ نے کہا : اے محمد ! یہ بتایئے کہ اگر آپ نے اپنی قوم کا صفایا بھی کردیا تو کیا اپنے آپ سے پہلے کسی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی قوم کا صفایا کردیا ہو۔ اور اگر دوسری صورتِ حال پیش آئی تو اللہ کی قسم! میں ایسے چہرے اور ایسے اوباش لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو اسی لائق ہیں کہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں۔
Flag Counter